Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اسلم محمود کے اشعار

399
Favorite

باعتبار

دیکھ آ کر کہ ترے ہجر میں بھی زندہ ہیں

تجھ سے بچھڑے تھے تو لگتا تھا کہ مر جائیں گے

ہم دل سے رہے تیز ہواؤں کے مخالف

جب تھم گیا طوفاں تو قدم گھر سے نکالا

پاؤں اس کے بھی نہیں اٹھتے مرے گھر کی طرف

اور اب کے راستہ بدلا ہوا میرا بھی ہے

اب یہ سمجھے کہ اندھیرا بھی ضروری شے ہے

بجھ گئیں آنکھیں اجالوں کی فراوانی سے

گزرتے جا رہے ہیں قافلے تو ہی ذرا رک جا

غبار راہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں

یہی نہیں کہ کسی یاد نے ملول کیا

کبھی کبھی تو یونہی بے سبب بھی روئے ہیں

رات آتی ہے تو طاقوں میں جلاتے ہیں چراغ

خواب زندہ ہیں سو آنکھوں میں جلاتے ہیں چراغ

خطا یہ تھی کہ میں آسانیوں کا طالب تھا

سزا یہ ہے کہ مرا تیشۂ ہنر بھی گیا

بے رنگ نہ واپس کر اک سنگ ہی دے سر کو

کب سے ترا طالب ہوں کب سے ترے در پر ہوں

میں ایک ریت کا پیکر تھا اور بکھر بھی گیا

عجب تھا خواب کہ میں خواب ہی میں ڈر بھی گیا

تیرے کوچے کی ہوا پوچھے ہے اب ہم سے

نام کیا ہے کیا نسب ہے ہم کہاں کے ہیں

آ گیا کون یہ آج اس کے مقابل اسلمؔ

آئینہ ٹوٹ گیا عکس کی تابانی سے

وہ درد ہوں کوئی چارہ نہیں ہے جس کا کہیں

وہ زخم ہوں کہ ہے دشوار اندمال مرا

تیغ نفس کو بہت ناز تھا رفتار پر

ہو گئی آخر مرے خوں میں نہا کر خموش

مری کہانی رقم ہوئی ہے ہوا کے اوراق منتشر پر

میں خاک کے رنگ غیر فانی کو اپنی تصویر کر رہا ہوں

مرے شوق سیر و سفر کو اب نئے اک جہاں کی نمود کر

ترے بحر و بر کو تو رکھ دیا ہے کبھی کا میں نے کھنگال کے

تمام عمر جسے میں عبور کر نہ سکا

درون ذات مرے بے کنار سا کچھ ہے

کہاں بھٹکتی پھرے گی اندھیری گلیوں میں

ہم اک چراغ سر کوچۂ ہوا رکھ آئے

رک گیا آ کے جہاں قافلۂ رنگ و نشاط

کچھ قدم آگے ذرا بڑھ کے مکاں ہے میرا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے