Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

بقا اللہ بقاؔ

1791/2

میر و سودا کے متنازعہ ہم عصرجو دونوں شعرا کی تنقید اور نکتہ چینی کے شکار ہوئے

میر و سودا کے متنازعہ ہم عصرجو دونوں شعرا کی تنقید اور نکتہ چینی کے شکار ہوئے

بقا اللہ بقاؔ کے اشعار

1.4K
Favorite

باعتبار

عشق میں بو ہے کبریائی کی

عاشقی جس نے کی خدائی کی

بلبل سے کہا گل نے کر ترک ملاقاتیں

غنچے نے گرہ باندھیں جو گل نے کہیں باتیں

عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں

داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں

چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے

میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ

الفت میں تری اے بت بے مہر و محبت

آیا ہمیں اک ہاتھ سے تالی کا بجانا

اس بزم میں پوچھے نہ کوئی مجھ سے کہ کیا ہوں

جو شیشہ گرے سنگ پہ میں اس کی صدا ہوں

خواہش سود تھی سودے میں محبت کے ولے

سر بسر اس میں زیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

دیکھ آئینہ جو کہتا ہے کہ اللہ رے میں

اس کا میں دیکھنے والا ہوں بقاؔ واہ رے میں

اپنی مرضی تو یہ ہے بندۂ بت ہو رہیے

آگے مرضی ہے خدا کی سو خدا ہی جانے

اے عشق تو ہر چند مرا دشمن جاں ہو

مرنے کا نہیں نام کا میں اپنے بقاؔ ہوں

قلم صفت میں پس از مراتب بدن ثنا میں تری کھپایا

بدن زباں میں زباں سخن میں سخن ثنا میں تری کھپایا

کیا تجھ کو لکھوں خط حرکت ہاتھ سے گم ہے

خامہ بھی مرے ہاتھ میں انگشت ششم ہے

بانگ تکبیر تو ایسی ہے بقاؔ سینہ خراش

انگلیاں آپ موذن نے دھریں کان کے بیچ

کل کے دن جو گرد مے خانے کے پھرتے تھے خراب

آج مسجد میں جو دیکھا صاحب سجادہ ہیں

یہ رند دے گئے لقمہ تجھے تو عذر نہ مان

ترا تو شیخ تنور و شکم برابر ہے

ہے دل میں گھر کو شہر سے صحرا میں لے چلیں

اٹھوا کے آنسوؤں سے در و بام دوش پر

خال لب آفت جاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

دام دانے میں نہاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

رشد باطن کی طلب ہے تو کر اے شیخ وہ کام

پیر مے خانہ جو ظاہر میں کچھ ارشاد کرے

مت تنگ ہو کرے جو فلک تجھ کو تنگ دست

آہستہ کھینچیے جو دبے زیر سنگ دست

دلا اٹھائیے ہر طرح اس کی چشم کا ناز

زمانہ بہ تو نسازد تو با زمانہ بساز

دیکھا تو ایک شعلے سے اے شیخ و برہمن

روشن ہیں شمع دیر و چراغ حرم بہم

بس پائے جنوں سیر بیاباں تو بہت کی

اب خانۂ زنجیر میں ٹک بیٹھ کے دم لے

سیلاب سے آنکھوں کے رہتے ہیں خرابے میں

ٹکڑے جو مرے دل کے بستے ہیں دو آبے میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے