Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bismil Azimabadi's Photo'

بسمل عظیم آبادی

1901 - 1978 | پٹنہ, انڈیا

عظیم آباد کے نامور شاعر، مشہور زمانہ شعر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے / دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ کے خالق

عظیم آباد کے نامور شاعر، مشہور زمانہ شعر ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے / دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے‘ کے خالق

بسمل عظیم آبادی کے اشعار

18.8K
Favorite

باعتبار

نہ اپنے ضبط کو رسوا کرو ستا کے مجھے

خدا کے واسطے دیکھو نہ مسکرا کے مجھے

ایک دن وہ دن تھے رونے پہ ہنسا کرتے تھے ہم

ایک یہ دن ہیں کہ اب ہنسنے پہ رونا آئے ہے

وقت آنے دے دکھا دیں گے تجھے اے آسماں

ہم ابھی سے کیوں بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہوئی بسملؔ

نہ رو سکے نہ کبھی ہنس سکے ٹھکانے سے

اک غلط سجدے سے کیا ہوتا ہے واعظ کچھ نہ پوچھ

عمر بھر کی سب ریاضت خاک میں مل جائے ہے

ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ

یہ برے دن بھی گزر جائیں گے

بیابان جنوں میں شام غربت جب ستایا کی

مجھے رہ رہ کر اے صبح وطن تو یاد آیا کی

کیا کریں جام و سبو ہاتھ پکڑ لیتے ہیں

جی تو کہتا ہے کہ اٹھ جائیے مے خانے سے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

دیکھا نہ تم نے آنکھ اٹھا کر بھی ایک بار

گزرے ہزار بار تمہاری گلی سے ہم

کس حال میں ہو کیسے ہو کیا کرتے ہو بسملؔ

مرتے ہو کہ جیتے ہو زمانے کے اثر سے

آزادی نے بازو بھی سلامت نہیں رکھے

اے طاقت پرواز تجھے لائیں کہاں سے

یہ کہہ کے دیتی جاتی ہے تسکیں شب فراق

وہ کون سی ہے رات کہ جس کی سحر نہ ہو

اگل نہ سنگ ملامت خدا سے ڈر ناصح

ملے گا کیا تجھے شیشوں کے ٹوٹ جانے سے

چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے

چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے

رہرو راہ محبت رہ نہ جانا راہ میں

لذت صحرا نوردی دورئ منزل میں ہے

غیروں نے غیر جان کے ہم کو اٹھا دیا

بیٹھے جہاں بھی سایۂ دیوار دیکھ کر

تم سن کے کیا کرو گے کہانی غریب کی

جو سب کی سن رہا ہے کہیں گے اسی سے ہم

ہنسی بسملؔ کی حالت پر کسی کو

کبھی آتی تھی اب آتی نہیں ہے

جرأت شوق تو کیا کچھ نہیں کہتی لیکن

پاؤں پھیلانے نہیں دیتی ہے چادر مجھ کو

مجبوریوں کو اپنی کہیں کیا کسی سے ہم

لائے گئے ہیں، آئے نہیں ہیں خوشی سے ہم

کہاں تمام ہوئی داستان بسملؔ کی

بہت سی بات تو کہنے کو رہ گئی اے دوست

بسملؔ بتوں کا عشق مبارک تمہیں مگر

اتنے نڈر نہ ہو کہ خدا کا بھی ڈر نہ ہو

کہاں قرار ہے کہنے کو دل قرار میں ہے

جو تھی خزاں میں وہی کیفیت بہار میں ہے

خزاں جب تک چلی جاتی نہیں ہے

چمن والوں کو نیند آتی نہیں ہے

اللہ تیرے ہاتھ ہے اب آبروئے شوق

دم گھٹ رہا ہے وقت کی رفتار دیکھ کر

داستاں پوری نہ ہونے پائی

زندگی ختم ہوئی جاتی ہے

سودا وہ کیا کرے گا خریدار دیکھ کر

گھبرا گیا جو گرمئ بازار دیکھ کر

Recitation

بولیے