غلام مرتضی راہی کے اشعار
میری کشتی کو ڈبو کر چین سے بیٹھے نہ تو
اے مرے دریا! ہمیشہ تجھ میں طغیانی رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر ایک سانس مجھے کھینچتی ہے اس کی طرف
یہ کون میرے لیے بے قرار رہتا ہے
نہ جانے قید میں ہوں یا حفاظت میں کسی کی
کھنچی ہے ہر طرف اک چار دیواری سی کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں ترے واسطے آئینہ تھا
اپنی صورت کو ترس اب کیا ہے
-
موضوع : آئینہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی
بلایا ہے سمندر پار مجھ کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جیسے کوئی کاٹ رہا ہے جال مرا
جیسے اڑنے والا کوئی پرندہ ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا
مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں ہی بنیاد کا درجہ نہیں ملتا کسی کو
کھڑی کی جائے گی مجھ پر ابھی دیوار کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ دور ہے جو تمہارا رہے گا یہ بھی نہیں
کوئی زمانہ تھا میرا گزر گیا وہ بھی
دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک
ایسے زخم کو اچھا کر کے بیٹھ گئے
اپنی قسمت کا بلندی پہ ستارہ دیکھوں
ظلمت شب میں یہی ایک نظارہ دیکھوں
اب جو آزاد ہوئے ہیں تو خیال آیا ہے
کہ ہمیں قید بھلی تھی تو سزا کیسی تھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھنے سننے کا مزہ جب ہے
کچھ حقیقت ہو کچھ فسانہ ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا
ضرور کوئی مجھے قید سے چھڑا لے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گرمیوں بھر مرے کمرے میں پڑا رہتا ہے
دیکھ کر رخ مجھے سورج کا یہ گھر لینا تھا
صحرا جنگل ساگر پربت
ان سے ہی رستہ ملتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک اک لفظ سے معنی کی کرن پھوٹتی ہے
روشنی میں پڑھا جاتا ہے صحیفہ میرا
کہاں تک اس کی مسیحائی کا شمار کروں
جہاں ہے زخم وہیں اندمال ہے اس کا
یہ لوگ کس کی طرف دیکھتے ہیں حسرت سے
وہ کون ہے جو سمندر کے پار رہتا ہے
اب مرے گرد ٹھہرتی نہیں دیوار کوئی
بندشیں ہار گئیں بے سر و سامانی سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم سری ان کی جو کرنا چاہے
اس کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں
چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا
سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا
دوسرا کوئی تماشہ نہ تھا ظالم کے پاس
وہی تلوار تھی اس کی وہی سر تھا میرا
اپنی تصویر کے اک رخ کو نہاں رکھتا ہے
یہ چراغ اپنا دھواں جانے کہاں رکھتا ہے
رکھتا نہیں ہے دشت سروکار آب سے
بہلائے جاتے ہیں یہاں پیاسے سراب سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی اک ذائقہ نہیں ملتا
غم میں شامل خوشی سی رہتی ہے
پرکھوں سے چلی آتی ہے یہ نقل مکانی
اب مجھ سے بھی خالی مرا گھر ہونے لگا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں
مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے
-
موضوع : دیدار
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک ہستی مری عناصر چار
ہر طرف سے گھری سی رہتی ہے
-
موضوع : عناصر شاعری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سانسوں کے آنے جانے سے لگتا ہے
اک پل جیتا ہوں تو اک پل مرتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی کی راہ میں آنے کی یہ بھی صورت ہے
کہ سایہ کے لیے دیوار ہو لیا جائے
-
موضوع : سایہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال
اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں
-
موضوع : تصویر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چاہتا ہے وہ کہ دریا سوکھ جائے
ریت کا بیوپار کرنا چاہتا ہے
کتنا بھی رنگ و نسل میں رکھتے ہوں اختلاف
پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں شجر اک قطار میں
یاروں نے میری راہ میں دیوار کھینچ کر
مشہور کر دیا کہ مجھے سایہ چاہئے
-
موضوع : سایہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے مرے پایاب دریا تجھ کو لے کر کیا کروں
ناخدا پتوار کشتی بادباں رکھتے ہوئے
بات بڑھتی گئی آگے مری نادانی سے
کتنا ارزاں ہوا میں اپنی فراوانی سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رکھ دیا وقت نے آئینہ بنا کر مجھ کو
رو بہ رو ہوتے ہوئے بھی میں فراموش رہا
-
موضوع : وقت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میری پہچان بتانے کا سوال آیا جب
آئنوں نے بھی حقیقت سے مکرنا چاہا
جو اس طرف سے اشارہ کبھی کیا اس نے
میں ڈوب جاؤں گا دریا کو پار کرتے ہوئے
رہے گا آئینے کی طرح آب پر قائم
ندی میں ڈوبنے والا نہیں کنارہ مرا
کیسا انساں ترس رہا ہے جینے کو
کیسے ساحل پر اک مچھلی زندہ ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پہلے چنگاری اڑا لائی ہوا
لے کے اب راکھ اڑی جاتی ہے
پہلے اس نے مجھے چنوا دیا دیوار کے ساتھ
پھر عمارت کو مرے نام سے موسوم کیا
ایک دن دریا مکانوں میں گھسا
اور دیواریں اٹھا کر لے گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جھانکتا بھی نہیں سورج مرے گھر کے اندر
بند بھی کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتا
حسن عمل میں برکتیں ہوتی ہیں بے شمار
پتھر بھی توڑیئے تو سلیقے سے توڑیئے
زبان اپنی بدلنے پہ کوئی راضی نہیں
وہی جواب ہے اس کا وہی سوال مرا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ ایسے دیکھتا ہے وہ مجھے کہ لگتا ہے
دکھا رہا ہے مجھے میرا آئنا کچھ اور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ