Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Murtaza Rahi's Photo'

غلام مرتضی راہی

1937 | فتح پور, انڈیا

غلام مرتضی راہی کے اشعار

3.8K
Favorite

باعتبار

میری کشتی کو ڈبو کر چین سے بیٹھے نہ تو

اے مرے دریا! ہمیشہ تجھ میں طغیانی رہے

ہر ایک سانس مجھے کھینچتی ہے اس کی طرف

یہ کون میرے لیے بے قرار رہتا ہے

نہ جانے قید میں ہوں یا حفاظت میں کسی کی

کھنچی ہے ہر طرف اک چار دیواری سی کوئی

میں ترے واسطے آئینہ تھا

اپنی صورت کو ترس اب کیا ہے

کسی نے بھیج کر کاغذ کی کشتی

بلایا ہے سمندر پار مجھ کو

جیسے کوئی کاٹ رہا ہے جال مرا

جیسے اڑنے والا کوئی پرندہ ہے

اس نے جب دروازہ مجھ پر بند کیا

مجھ پر اس کی محفل کے آداب کھلے

یوں ہی بنیاد کا درجہ نہیں ملتا کسی کو

کھڑی کی جائے گی مجھ پر ابھی دیوار کوئی

یہ دور ہے جو تمہارا رہے گا یہ بھی نہیں

کوئی زمانہ تھا میرا گزر گیا وہ بھی

دل نے تمنا کی تھی جس کی برسوں تک

ایسے زخم کو اچھا کر کے بیٹھ گئے

اپنی قسمت کا بلندی پہ ستارہ دیکھوں

ظلمت شب میں یہی ایک نظارہ دیکھوں

اب جو آزاد ہوئے ہیں تو خیال آیا ہے

کہ ہمیں قید بھلی تھی تو سزا کیسی تھی

دیکھنے سننے کا مزہ جب ہے

کچھ حقیقت ہو کچھ فسانہ ہو

حصار جسم مرا توڑ پھوڑ ڈالے گا

ضرور کوئی مجھے قید سے چھڑا لے گا

گرمیوں بھر مرے کمرے میں پڑا رہتا ہے

دیکھ کر رخ مجھے سورج کا یہ گھر لینا تھا

صحرا جنگل ساگر پربت

ان سے ہی رستہ ملتا ہے

ایک اک لفظ سے معنی کی کرن پھوٹتی ہے

روشنی میں پڑھا جاتا ہے صحیفہ میرا

کہاں تک اس کی مسیحائی کا شمار کروں

جہاں ہے زخم وہیں اندمال ہے اس کا

یہ لوگ کس کی طرف دیکھتے ہیں حسرت سے

وہ کون ہے جو سمندر کے پار رہتا ہے

اب مرے گرد ٹھہرتی نہیں دیوار کوئی

بندشیں ہار گئیں بے سر و سامانی سے

ہم سری ان کی جو کرنا چاہے

اس کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں

چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا

سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا

دوسرا کوئی تماشہ نہ تھا ظالم کے پاس

وہی تلوار تھی اس کی وہی سر تھا میرا

اپنی تصویر کے اک رخ کو نہاں رکھتا ہے

یہ چراغ اپنا دھواں جانے کہاں رکھتا ہے

رکھتا نہیں ہے دشت سروکار آب سے

بہلائے جاتے ہیں یہاں پیاسے سراب سے

کوئی اک ذائقہ نہیں ملتا

غم میں شامل خوشی سی رہتی ہے

پرکھوں سے چلی آتی ہے یہ نقل مکانی

اب مجھ سے بھی خالی مرا گھر ہونے لگا ہے

اب اور دیر نہ کر حشر برپا کرنے میں

مری نظر ترے دیدار کو ترستی ہے

ایک ہستی مری عناصر چار

ہر طرف سے گھری سی رہتی ہے

سانسوں کے آنے جانے سے لگتا ہے

اک پل جیتا ہوں تو اک پل مرتا ہوں

کسی کی راہ میں آنے کی یہ بھی صورت ہے

کہ سایہ کے لیے دیوار ہو لیا جائے

آتا تھا جس کو دیکھ کے تصویر کا خیال

اب تو وہ کیل بھی مری دیوار میں نہیں

چاہتا ہے وہ کہ دریا سوکھ جائے

ریت کا بیوپار کرنا چاہتا ہے

کتنا بھی رنگ و نسل میں رکھتے ہوں اختلاف

پھر بھی کھڑے ہوئے ہیں شجر اک قطار میں

یاروں نے میری راہ میں دیوار کھینچ کر

مشہور کر دیا کہ مجھے سایہ چاہئے

اے مرے پایاب دریا تجھ کو لے کر کیا کروں

ناخدا پتوار کشتی بادباں رکھتے ہوئے

بات بڑھتی گئی آگے مری نادانی سے

کتنا ارزاں ہوا میں اپنی فراوانی سے

رکھ دیا وقت نے آئینہ بنا کر مجھ کو

رو بہ رو ہوتے ہوئے بھی میں فراموش رہا

میری پہچان بتانے کا سوال آیا جب

آئنوں نے بھی حقیقت سے مکرنا چاہا

جو اس طرف سے اشارہ کبھی کیا اس نے

میں ڈوب جاؤں گا دریا کو پار کرتے ہوئے

رہے گا آئینے کی طرح آب پر قائم

ندی میں ڈوبنے والا نہیں کنارہ مرا

کیسا انساں ترس رہا ہے جینے کو

کیسے ساحل پر اک مچھلی زندہ ہے

پہلے چنگاری اڑا لائی ہوا

لے کے اب راکھ اڑی جاتی ہے

پہلے اس نے مجھے چنوا دیا دیوار کے ساتھ

پھر عمارت کو مرے نام سے موسوم کیا

ایک دن دریا مکانوں میں گھسا

اور دیواریں اٹھا کر لے گیا

جھانکتا بھی نہیں سورج مرے گھر کے اندر

بند بھی کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتا

حسن عمل میں برکتیں ہوتی ہیں بے شمار

پتھر بھی توڑیئے تو سلیقے سے توڑیئے

زبان اپنی بدلنے پہ کوئی راضی نہیں

وہی جواب ہے اس کا وہی سوال مرا

کچھ ایسے دیکھتا ہے وہ مجھے کہ لگتا ہے

دکھا رہا ہے مجھے میرا آئنا کچھ اور

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے