جلالؔ لکھنوی کے اشعار
پہنچے نہ وہاں تک یہ دعا مانگ رہا ہوں
قاصد کو ادھر بھیج کے دھیان آئے ہے کیا کیا
میں نے پوچھا کہ ہے کیا شغل تو ہنس کر بولے
آج کل ہم تیرے مرنے کی دعا کرتے ہیں
جلالؔ عہد جوانی ہے دو گے دل سو بار
ابھی کی توبہ نہیں اعتبار کے قابل
عشق کی چوٹ کا کچھ دل پہ اثر ہو تو سہی
درد کم ہو یا زیادہ ہو مگر ہو تو سہی
جس نے کچھ احساں کیا اک بوجھ سر پر رکھ دیا
سر سے تنکا کیا اتارا سر پہ چھپر رکھ دیا
نہ خوف آہ بتوں کو نہ ڈر ہے نالوں کا
بڑا کلیجہ ہے ان دل دکھانے والوں کا
میں جو آیا غیر سے ہنس کر کہا اس نے جلالؔ
ختم ہے جس پر شرافت وہ کمینہ آ گیا
نہ ہو برہم جو بوسہ بے اجازت لے لیا میں نے
چلو جانے دو بیتابی میں ایسا ہو ہی جاتا ہے
اک رات دل جلوں کو یہ عیش وصال دے
پھر چاہے آسمان جہنم میں ڈال دے
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلف یار کی بو
پھری تو باد صبا کا دماغ بھی نہ ملا
-
موضوع : زلف
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ