محمد رفیع سودا کے اشعار
سوداؔ جہاں میں آ کے کوئی کچھ نہ لے گیا
جاتا ہوں ایک میں دل پر آرزو لیے
غرض کفر سے کچھ نہ دیں سے ہے مطلب
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مت پوچھ یہ کہ رات کٹی کیونکے تجھ بغیر
اس گفتگو سے فائدہ پیارے گزر گئی
سوداؔ کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت
خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سوداؔ
ساغر کو مرے ہاتھ سے لیجو کہ چلا میں
-
موضوع : آنکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گلہ لکھوں میں اگر تیری بے وفائی کا
لہو میں غرق سفینہ ہو آشنائی کا
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنا لکھائیو مری لوح مزار پر
یاں تک نہ ذی حیات کو کوئی خفا کرے
فکر معاش عشق بتاں یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
گر تجھ میں ہے وفا تو جفاکار کون ہے
دل دار تو ہوا تو دل آزار کون ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم کان دھر سنو نہ سنو اس کے حرف کو
سوداؔ کو ہے گی اپنی ہی گفتار سے غرض
موج نسیم آج ہے آلودہ گرد سے
دل خاک ہو گیا ہے کسی بے قرار کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہے مدتوں سے خانۂ زنجیر بے صدا
معلوم ہی نہیں کہ دوانے کدھر گئے
تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی
نہیں ہے گھر کوئی ایسا جہاں اس کو نہ دیکھا ہو
کنھیا سے نہیں کچھ کم صنم میرا وہ ہرجائی
کیا کروں گا لے کے واعظ ہاتھ سے حوروں کے جام
ہوں میں ساغر کش کسی کے ساغر مخمور کا
بادشاہت دو جہاں کی بھی جو ہووے مجھ کو
تیرے کوچے کی گدائی سے نہ کھو دے مجھ کو
اس کشمکش سے دام کے کیا کام تھا ہمیں
اے الفت چمن ترا خانہ خراب ہو
نسیم ہے ترے کوچے میں اور صبا بھی ہے
ہماری خاک سے دیکھو تو کچھ رہا بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
کسے طاقت ہے شرح شوق اس مجلس میں کرنے کی
اٹھا دینے کے ڈر سے سانس واں لیتے ہیں رہ رہ کے
بدلا ترے ستم کا کوئی تجھ سے کیا کرے
اپنا ہی تو فریفتہ ہووے خدا کرے
میں نے تم کو دل دیا اور تم نے مجھے رسوا کیا
میں نے تم سے کیا کیا اور تم نے مجھ سے کیا کیا
کون کسی کا غم کھاتا ہے
کہنے کو غم خوار ہے دنیا
دل کے ٹکڑوں کو بغل گیر لئے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے شیشہ گراں ہے کہ نہیں
ترا خط آنے سے دل کو میرے آرام کیا ہوگا
خدا جانے کہ اس آغاز کا انجام کیا ہوگا
کام آئی کوہ کن کی مشقت نہ عشق میں
پتھر سے جوئے شیر کے لانے نے کیا کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شاخ میں گل کی نزاکت یہ بہم پہنچی ہے
شمع ساں گرمیٔ نظارہ سے جاتی ہے پگھل
تشریح
اردو میں تفہم و تشریح کا عمل زیادہ تر غزل کے اشعار تک ہی محدود رکھا گیا جس سے مثنوی اور قصیدہ گو شعرا کی جولانیٔ طبع کی صحیح طور پر ترجمانی نہ ہوسکی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوا کہ نمائندہ مثنویوں اور قصیدوں کو درسی نصاب میں ٹھونسا گیا جس کے نتیجے میں نہ صرف ان ادبی شاہکاروں کے ساتھ ناانصافی ہوئی بلکہ شعری ادب کا ایک اہم اور قابلِ قدر حصّہ تعینِ قدر سے محروم رہا۔ ادھر مثنویوں اور قصیدوں پر تنقیدات کے عمل کے دائرے کو زیادہ تر درس و تدریس کی ضروریات تک محدود رکھا گیا جس سے سنجیدہ قاری کو ناقص تنقید کا بوجھ سہنا پڑا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ چونکہ مثنوی یا قصیدہ کے اشعار معنوی سطح پر باہم مربوط ہوتے ہیں لہٰذا کسی ایک شعر کو سیاق و سباق سے الگ کرکے تشریح و تفہیم کے لیے منتخب کرنا دشوار ہے۔ مگر میں یہ مانتا ہوں کہ اگر دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو سینکڑوں کی تعداد میں ایسے اشعار کا انتخاب کیا جاسکتا ہے جو معنی کے اعتبار سے نہ صرف خود مکتفی ہیں بلکہ اگر ان کی تشریح سلسلۂ مضمون سے منقطع کرکے بھی کی جائے تو نفسِ مضون پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ مثال کے طور پر زیرِ بحث شعر جسے سوداؔ کے قصیدے ’’باب الجنّت در منقبتِ امیرالمومنینؓ‘‘ سے لیا گیا ہے۔ شعر کئی اعتبار سے دلچسپ ہے اور قابلِ غور بھی۔ دل چسپ اس لیے کہ اس کی بنت بہت لطیف ہے۔ مثلاً شاخ، گُل، نزاکت، شمع، گرمیٔ نظارہ وہ الفاظ ہیں جن سے سوداؔ نے ایسی پرکیف فضا پیدا کی ہے جو قاری کو اس شعر کے لفظی اور معنوی انسلاکات پر غور کرنے کے لیے اکساتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان انسلاکات کی توجیہ اور توضیح قاری کے اندر کئی احساسات کو متحرک کرتی ہے۔
شعر کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے معنی میں کیفیت، وسعت اور گہرائی پیدا کرنے کے لیے سوداؔ نےتخیل کی قوّت سے جو نادر پیکر تراشا ہے اس کی نوعیت بیک وقت بصری، شامعی، لمسی اور حرکی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ باقی سب پیکروں کی بنیاد بصری پیکر ہر رکھ کر انسانی جمالیات کی کئی حسوں کو بیک وقت انگیخت کیا گیا ہے۔ شاخ، گُل، شمع، گرمیٔ نظارہ اور پگھلنا، ان سب الفاظ سے تخلیق ہونے والے دیگر پیکروں کی وضاحت یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ جب گُل ہے تو خوشبو کو بھی قیاس کیا جائے گا یعنی شامعی پیکر وجود میں آگیا۔ شاخ شمع کی طرح گرمیٔ نظارہ سے پگھل جاتی ہے گویا گرمی کا لمس محسوس کرتی ہے لہٰذا لمسی پیکر تخلیق ہوا۔ شاخ میں گُل کی نزاکت پہنچنے اور گرمیٔ نظارہ سے پگھل جانے میں حرکت کا دخل ہے اس لیے حرکی پیکر بن گیا۔
سودا نے شاخ، گُل، نزاکت، شمع اور گرمیٔ نظارہ کے روایتی انسلاکات سے گریز کرکے اپنی جودتِ طبع اور قوّتِ تخیل سے الفاظ کے درمیان ایک ایسا معنوی ربط پیدا کیا ہے کہ شعر میں جذباتی تاثر اور محاکاتی اثر کو خوب محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ولیؔ دکنی کے اس شعر میں کسی حد تک نازک خیالی کے ساتھ ساتھ ندرت کا بھی احساس ہوتا ہے؎
تجھے شمع کے برابر کہہ سکوں کیوں کر
کہ نخلِ موم جدا، سروِ سر بلند جدا
ولیؔ کا یہ شعر بھی معنی آفرینی کے اعتبار سے دل چسپ ہے؎
معشوق کو ضرر نہیں عاشق کی آہ سوں
بجھتا نہیں ہے بادِ صبا سوں چراغِ گُل
زیرِ بحث شعر کا کلیدی لفظ شاخ ہےکہ گُل کی نزاکت بہم پہنچنے اور گرمیٔ نظارہ سے شمع ساں پگھلنے کی سب سرگرمیوں کا مرکز و مفعول یہی ہے۔ دیکھا جائے تو شاخ اپنی ذات میں ایک کمزور استعارہ ہے۔ لیکن سوداؔ نے گُل، شمع اور گرمیٔ نظارہ کے استعاروں سے اسے وہ وسعت بخشی ہے کہ یہ(شاخ) نہ صرف پورے منظر کا احاطہ کرتی ہے بلکہ معنی و مفہوم کا مرکز بھی بن جاتی ہے۔ شمع ساں کمال کی تشبیہ ہے۔ اسی تشبیہ کے زور سے سوداؔ نے شاخ کو موم پتی کا بلیغ استعارہ بنایا ہے۔ گُل کی نزاکت اور گرمیٔ نظارہ سے حسنِ تضاد پیدا ہوا ہے۔ تضاد کی صورت ایجابی ہونے کی بنا پر شعر کے حسن میں دونا اضافہ ہوا ہے۔
غالبؔ نے ناکامیٔ نظارہ کو برقِ نظارہ سوز پر محمول کرکے قصّہ ختم کیا ہے؎
ناکامیٔ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو نظارہ کرے کوئی
لیکن سوداؔ نے گل کی نزاکت سے گرمیٔ نظارہ پیدا کی ہے۔ غالب کے شعر میں برقِ نظارہ سوز سے طنطنہ پیدا ہوا ہے جبکہ سوداؔ کے شعر میں گل کی نزاکت اور گرمیٔ نظارہ سے سوز و گداز بلکہ سوزش کی ایک لطیف لہر دوڑتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے۔ میرؔ نے البتہ اس شعر میں اس نوع کی لطیف کیفیت پیدا کی ہے؎
اس سیم تن کو تھی کب تاب و تعب اتنیوہ چاندنی میں شب کی ہوتا تو پگھل جاتا
(دیوانِ دوم)
شعر کی تفہیم مجازی اور حقیقی سطحوں پر ان الفاظ میں بیان کی جاسکتی ہے کہ شاخ کے اندر گل کی نزاکت کچھ اس طور سے سرایت کر گئی کہ گرمیٔ نظارہ سے شمع کی طرح پگھلنے لگی۔ پھول کو سرخ رنگ کی مناسبت سے شعلے سے تعبیر کرتے ہیں تو اپنی نزاکت کی خصوصیت سے یہ شعلہ دہکتا تو ہے لیکن بھڑکتا نہیں۔ کیونکہ بھڑک اٹھتا تو بھک سے غالبؔ کی برقَ نظارہ سوز کی طرح شاخ کو ایک ہی آن میں بھسم کردیتا۔ پگھلنا سوز و گداز کی وہ کیفیت ہے جو شاخ کو مجسم شمع بنا دیتی ہے۔ اس کیفیت سے شاخ میں خود سوزوگداز پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اسے(یعنی شاخ کو) بصورتِ شمع یوں تصور کرسکتے ہیں کہ اس کی لو جل رہی ہے اور یہ لو آہستہ آہستہ اسے پگھلارہی ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ شعر قصیدے کی تشبیب سے لیا گیا ہے اور تشبیب بھی بہاریہ ہے، اس کے اندر اگر مزید معنی کی جستجو کریں گے تو معلوم ہوگا:(۱) نرم اور ملائم شے اپنی صحبت سے سخت سے سخت ترین شے کی تقلیب ماہیت کردیتی ہے بلکہ خود میں ہی ضم کردیتی ہے۔ (۲)[ عارفانہ نقطۂ نظر سے] جب تک کسی فرد میں سوزو گداز پیدا نہ ہو اس کا وجود مجرد، خشک اور ٹھوس ہے۔ سوزودداز کی کیفیت اسے حسن کا عرفان عطا کرتی ہے۔ جب حسن کہا تو حسن اور عشق یعنی شاہدومشہود کو لازم و ملزوم سمجھا۔
شفق سوپوری
سوداؔ ہوئے جب عاشق کیا پاس آبرو کا
سنتا ہے اے دوانے جب دل دیا تو پھر کیا
اکیلا ہو رہ دنیا میں گر چاہے بہت جینا
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
-
موضوع : سوشل ڈسٹینسنگ شاعری
کہتے ہیں وہ جو ہے سوداؔ کا قصیدہ ہی خوب
ان کی خدمت میں لئے میں یہ غزل جاؤں گا
سوداؔ سے شخص کے تئیں آزردہ کیجیے
اے خود پرست حیف نہیں تو وفا پرست
تشریح
اس شعر مہں سارا کھیل دو لفظوں سودا اور ہوا کا ہے، سودا کے زمانہ میں شاید ہی کسی کو یہ شعر سمجھنے میں دشواری ہوئی ہو کیونکہ اس زمانہ میں عام آدمی بھی ان دونوں الفاظ کے ربط سے واقف تھا، آج حالات مختلف ہیں۔
آمدم بر سر مطلب، تھوڑی دیر کے لئے میں اس شعر کو نا موزوں لیکن آسان کئے دیتا ہوں
سودا سے شخص کے تئیں آزردہ کیجئے
اے خود پرست حیف نہیں تو سودا پرست
ناموزوں ہونے کو زرا دیر کے لئے بھولتے ہوئے بتائیے کہ کیا اب بھی اس شعر میں کوئی پیچیدگی ہے؟ معنی کا مسئلہ تو حل ہوا اب ہم اس کی ناموزونیت بھی سودا پرست کو ،جس کی وجہ سے شعر ناموزوں ہوا تھا۔ اس کے ہم معنی لفظ ہوا پرست سے بدل کر دور کئے دیتے ہیں۔ از روئے لغت سودا پرستی اور ہوا پرستی ہم معنی ہیں ۔
شعر اور لغت سے ہٹ کر اب کچھ اور بات بھی ہو جائے جس سے سودا پرستی اور ہوا پرستی کا علمی تعلق بھی واضح ہو جائے ۔ طب یونانی اور ہندوستانی آیورویدک طریق علاج کا بنیادی اصول یہ ہے کی تمام انسانی عوارض اختلاط میں عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ طب یونانی میں یہ اختلاط صفرا،سودا، بلغم اور خون ہیں جبکہ آیوروید صرف تین اختلاط صفرا (پت) سودا (وات،،بمعنی ہوا جس سے واتاورن بمعنی ماحول اور واتانوکول بمعنی ایر کندیشنڈ بنے، دوسرے الفاظ میں سودا ویت وات کے دوش (خرابی یا عدم توازن) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی اعتبار سے سودا پرستی ہوا پرستی کے ہم معنی قرار پائی۔
According to Ayurveda, the mind, or manas as it is known in Sanskrit, is composed primarily of the air and ether elements[19]. Thus, of the three doshas vata is commonly behind most psychological disorders[19]. Excess air within the mind causes mental instability and agitation, which leads to excessive thinking, worrying, and ultimately the perception that our problems are much worse than they really are[19]. “The mind becomes overly sensitive, excessively reactive, and we take things too personally. We are prone to premature or inappropriate action that may aggravate our problems.”[19] Frawley, pp.154-155.
اس شعر میں سودا نے تخلص کے استعمال میں استادی دکھائی ہے۔ سودا کا شعر پڑھنے کے بعد میر کا یہ شعر یاد آنا ناگزیر ہے۔
ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں
میر کو تم عبث اداس کیا
محمّد آزم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
-
موضوع : میر تقی میر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہیو صبا سلام ہمارا بہار سے
ہم تو چمن کو چھوڑ کے سوئے قفس چلے
ساقی ہماری توبہ تجھ پر ہے کیوں گوارہ
منت نہیں تو ظالم ترغیب یا اشارہ
کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روز ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا ازل سے ہے صانع نے بت پرست مجھے
کبھو بتوں سے پھروں میں یہ تو خدا نہ کرے
یہ تو نہیں کہتا ہوں کہ سچ مچ کرو انصاف
جھوٹی بھی تسلی ہو تو جیتا ہی رہوں میں
سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو تک تو کہیں مر بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ کر سوداؔ تو شکوہ ہم سے دل کی بے قراری کا
محبت کس کو دیتی ہے میاں آرام دنیا میں
سوداؔ جو ترا حال ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
تشریح
سوداؔ کے اس شعر میں لفظ ’جو‘ اتنا تو نہیں وہ ’’اسے‘‘ اور کس آن ہم ہیں۔ ’’وہ‘‘ اور ’’اسے‘‘ اشارہ محبوب کی طرف ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ سودا جو ترا حال ہے اتنا وہ یعنی تیرا محبوب نہیں ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تونے اسے کس وقت دیکھا ہے۔
لیکن جب دور کے معنی پر غور کرتے ہیں تو خیال کی ایک صورت حال ابھرتی ہے ۔ اس صورت حال کے دو کردار ہیں ایک سودا دوسرا متکلم یعنی سوداؔ سے بات کرنے والاا۔ یہ سودا کا کوئی دوست بھی ہو سکتا ہے یا خد سوداؔ بھی۔
بہر حال جو بھی ہے وہ سوداؔ سے یہ کہتا ہے کہ اے سوداؔ تونے جس معشوق کے غم میں اپنا یہ حال بنا دیا ہے یعنی اپنی حالت بگاڑ دی ہے، میں نے اسے دیکھا اور وہ ہرگز اس قدر خوبصورت نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی اپنی جان کھپائے۔ معلوم نہیں تم نے اسے کس آن میں دیکھا ہے کہ وہ تیرے دل کو بھا گیا۔ آن کے دو معنی ہیں ایک ہے وقت اور دوسرا معشوقانہ چھپ، شان و شوکت۔ وضع اور ڈھنگ۔ اور شعر میں آن کو دوسرے معنی یعنی معشوقانہ چھپ، وضع، ڈھنگ میں لیا گیا ہے۔ یعنی پتہ نہیں اے سوداؔ تونے اسے یعنی اپنے محبوب کو کس معشوقانہ چھپ، وضع یا ڈھنگ میں دیکھا ہے کہ اس کے عشق میں جان کھپا بیٹھا ہے۔ میں نے اسے دیکھا وہ اس قدر بھی خوبصورت نہیں کہ کوئی اپنی حالت اس کے عشق میں بگاڑ دے۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں جو سیر کروں کوہ طور کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر آن آ مجھی کو ستاتے ہو ناصحو
سمجھا کے تم اسے بھی تو یک بار کچھ کہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے ثباتی زمانے کی ناچار
کرنی مجھ کو بیان پڑتی ہے
-
موضوع : بے ثباتی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ساقی گئی بہار رہی دل میں یہ ہوس
تو منتوں سے جام دے اور میں کہوں کہ بس