Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mubarak Azimabadi's Photo'

مبارک عظیم آبادی

1896 - 1959 | پٹنہ, انڈیا

بہار کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

بہار کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

مبارک عظیم آبادی کے اشعار

13.9K
Favorite

باعتبار

تیری بخشش کے بھروسے پہ خطائیں کی ہیں

تیری رحمت کے سہارے نے گنہ گار کیا

جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں

دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں

مجھ کو معلوم ہے انجام محبت کیا ہے

ایک دن موت کی امید پہ جینا ہوگا

پھول کیا ڈالوگے تربت پر مری

خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی

رہنے دے اپنی بندگی زاہد

بے محبت خدا نہیں ملتا

دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے

اتنے وقتوں میں کوئی وقت ملاقات بھی ہے

تری ادا کی قسم ہے تری ادا کے سوا

پسند اور کسی کی ہمیں ادا نہ ہوئی

ہنسی ہے دل لگی ہے قہقہے ہیں

تمہاری انجمن کا پوچھنا کیا

کب وہ آئیں گے الٰہی مرے مہماں ہو کر

کون دن کون برس کون مہینہ ہوگا

آپ کا اختیار ہے سب پر

آپ پر اختیار کس کا ہے

جو دل نشیں ہو کسی کے تو اس کا کیا کہنا

جگہ نصیب سے ملتی ہے دل کے گوشوں میں

اپنی سی کرو تم بھی اپنی سی کریں ہم بھی

کچھ تم نے بھی ٹھانی ہے کچھ ہم نے بھی ٹھانی ہے

مہربانی چارہ سازوں کی بڑھی

جب بڑھا درماں تو بیماری بڑھی

قبول ہو کہ نہ ہو سجدہ و سلام اپنا

تمہارے بندے ہیں ہم بندگی ہے کام اپنا

بے وفا عمر دغاباز جوانی نکلی

نہ یہی رہتی ہے ظالم نہ وہی رہتی ہے

ملو ملو نہ ملو اختیار ہے تم کو

اس آرزو کے سوا اور آرزو کیا ہے

لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس

اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس

دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر

راز کو مشتہر کریں کیوں کر

مری خاک بھی اڑے گی با ادب تری گلی میں

ترے آستاں سے اونچا نہ مرا غبار ہوگا

اک تری بات کہ جس بات کی تردید محال

اک مرا خواب کہ جس خواب کی تعبیر نہیں

کب ان آنکھوں کا سامنا نہ ہوا

تیر جن کا کبھی خطا نہ ہوا

سمجھائیں کس طرح دل ناکردہ کار کو

یہ دوستی سمجھتا ہے دشمن کے پیار کو

کسی نے برچھیاں ماریں کسی نے تیر مارے ہیں

خدا رکھے انہیں یہ سب کرم فرما ہمارے ہیں

جو قیامت کا نہیں دن وہ مرا دن کیسا

جو تڑپ کر نہ کٹی ہو وہ مری رات نہیں

میں تو ہر ہر خم گیسو کی تلاشی لوں گا

کہ مرا دل ہے ترے گیسوئے خم دار کے پاس

آنے میں کبھی آپ سے جلدی نہیں ہوتی

جانے میں کبھی آپ توقف نہیں کرتے

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں

غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

محبت میں وفا کی حد جفا کی انتہا کیسی

مبارکؔ پھر نہ کہنا یہ ستم کوئی سہے کب تک

اس گلی میں ہزار غم ٹوٹا

آنا جانا مگر نہیں چھوٹا

کسی سے آج کا وعدہ کسی سے کل کا وعدہ ہے

زمانے کو لگا رکھا ہے اس امیدواری میں

کہیں ایسا نہ ہو کم بخت میں جان آ جائے

اس لیے ہاتھ میں لیتے مری تصویر نہیں

اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو

اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے

شکست توبہ کی تمہید ہے تری توبہ

زباں پہ توبہ مبارکؔ نگاہ ساغر پر

یہ تصرف ہے مبارکؔ داغ کا

کیا سے کیا اردو زباں ہوتی گئی

دل لگاتے ہی تو کہہ دیتی ہیں آنکھیں سب کچھ

ایسے کاموں کے بھی آغاز کہیں چھپتے ہیں

کیا کہیں کیا کیا کیا تیری نگاہوں نے سلوک

دل میں آئیں دل میں ٹھہریں دل میں پیکاں ہو گئیں

گئی بہار مگر اپنی بے خودی ہے وہی

سمجھ رہا ہوں کہ اب تک بہار باقی ہے

کسی کی تمنا نکلتی رہی

مری آرزو ہاتھ ملتی رہی

کہاں قسمت میں اس کی پھول ہونا

وہی دل کی کلی ہے اور ہم ہیں

کھٹک رہی ہے کوئی شے نکال دے کوئی

تڑپ رہا ہے دل بے قرار سینے میں

خیر ساقی کی سلامت مے کدہ

جس قدر پی اتنی ہشیاری بڑھی

تم بھول گئے مجھ کو یوں یاد دلاتا ہوں

جو آہ نکلتی ہے وہ یاد دہانی ہے

کبھی دل کی کلی کھلی ہی نہیں

اعتبار بہار کون کرے

ہم بھی دیوانے ہیں وحشت میں نکل جائیں گے

نجد اک دشت ہے کچھ قیس کی جاگیر نہیں

کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا

جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے

تم کو سمجھائے مبارکؔ کوئی کیوں کر افسوس

تم تو رونے لگے یار اور بھی سمجھانے سے

کل تو دیکھا تھا مبارکؔ بتکدے میں آپ کو

آج حضرت جا کے مسجد میں مسلماں ہو گئے

دل میں آنے کے مبارکؔ ہیں ہزاروں رستے

ہم بتائیں اسے راہیں کوئی ہم سے پوچھے

اس بھری محفل میں ہم سے داور محشر نہ پوچھ

ہم کہیں گے تجھ سے اپنی داستاں سب سے الگ

اثر ہو یا نہ ہو واعظ بیاں میں

مگر چلتی تو ہے تیری زباں خوب

Recitation

بولیے