Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mubarak Azimabadi's Photo'

مبارک عظیم آبادی

1896 - 1959 | پٹنہ, انڈیا

بہار کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

بہار کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

مبارک عظیم آبادی کے اشعار

13.6K
Favorite

باعتبار

نہ مانو گے نہ مانو گے ہماری

ادھر ہو جائے گی دنیا ادھر کی

کسی سے آج کا وعدہ کسی سے کل کا وعدہ ہے

زمانے کو لگا رکھا ہے اس امیدواری میں

کب ان آنکھوں کا سامنا نہ ہوا

تیر جن کا کبھی خطا نہ ہوا

قبلہ و کعبہ یہ تو پینے پلانے کے ہیں دن

آپ کیا حلق کے دربان بنے بیٹھے ہیں

جو قیامت کا نہیں دن وہ مرا دن کیسا

جو تڑپ کر نہ کٹی ہو وہ مری رات نہیں

قدم قدم پہ یہ کہتی ہوئی بہار آئی

کہ راہ بند تھی جنگل کی کھول دی میں نے

یہ غم کدہ ہے اس میں مبارکؔ خوشی کہاں

غم کو خوشی بنا کوئی پہلو نکال کے

اس بھری محفل میں ہم سے داور محشر نہ پوچھ

ہم کہیں گے تجھ سے اپنی داستاں سب سے الگ

ہوا باندھتے ہیں جو حضرت جناں کی

گلی میں حسینوں کی آئے گئے ہیں

دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے

اتنے وقتوں میں کوئی وقت ملاقات بھی ہے

اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو

اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے

دل میں آنے کے مبارکؔ ہیں ہزاروں رستے

ہم بتائیں اسے راہیں کوئی ہم سے پوچھے

خیر ساقی کی سلامت مے کدہ

جس قدر پی اتنی ہشیاری بڑھی

بکھری ہوئی ہے یوں مری وحشت کی داستاں

دامن کدھر کدھر ہے گریباں کہاں کہاں

اک تری بات کہ جس بات کی تردید محال

اک مرا خواب کہ جس خواب کی تعبیر نہیں

کچھ اس انداز سے صیاد نے آزاد کیا

جو چلے چھٹ کے قفس سے وہ گرفتار چلے

رہنے دے اپنی بندگی زاہد

بے محبت خدا نہیں ملتا

میں تو ہر ہر خم گیسو کی تلاشی لوں گا

کہ مرا دل ہے ترے گیسوئے خم دار کے پاس

بیش و کم کا شکوہ ساقی سے مبارکؔ کفر تھا

دور میں سب کے بقدر ظرف پیمانہ رہا

کس پہ دل آیا کہاں آیا بتا اے ناصح

تو مری طرح پریشان کہاں جاتا ہے

سمجھائیں کس طرح دل ناکردہ کار کو

یہ دوستی سمجھتا ہے دشمن کے پیار کو

نکلنا آرزو کا دل سے معلوم

ہجوم یاس میں رستہ ملے کیا

ہنسی ہے دل لگی ہے قہقہے ہیں

تمہاری انجمن کا پوچھنا کیا

اپنی سی کرو تم بھی اپنی سی کریں ہم بھی

کچھ تم نے بھی ٹھانی ہے کچھ ہم نے بھی ٹھانی ہے

دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر

راز کو مشتہر کریں کیوں کر

ادھر چٹکی وہ دل میں لے رہے ہیں

ادھر اک گدگدی سی ہو رہی ہے

محراب عبادت خم ابرو ہے بتوں کا

کر بیٹھے ہیں کعبے کو مسلمان فراموش

محبت میں وفا کی حد جفا کی انتہا کیسی

مبارکؔ پھر نہ کہنا یہ ستم کوئی سہے کب تک

کب وہ آئیں گے الٰہی مرے مہماں ہو کر

کون دن کون برس کون مہینہ ہوگا

کہاں قسمت میں اس کی پھول ہونا

وہی دل کی کلی ہے اور ہم ہیں

کلی رہ گئی ناشگفتہ ہماری

گلہ رہ گیا یہ نسیم چمن سے

کھٹک رہی ہے کوئی شے نکال دے کوئی

تڑپ رہا ہے دل بے قرار سینے میں

اثر ہو یا نہ ہو واعظ بیاں میں

مگر چلتی تو ہے تیری زباں خوب

خبر اتنی تو ہے جھونکے ترے باد خزاں پہنچے

خدا معلوم تنکے آشیانے کے کہاں پہنچے

جو دل نشیں ہو کسی کے تو اس کا کیا کہنا

جگہ نصیب سے ملتی ہے دل کے گوشوں میں

یہ تصرف ہے مبارکؔ داغ کا

کیا سے کیا اردو زباں ہوتی گئی

ملو ملو نہ ملو اختیار ہے تم کو

اس آرزو کے سوا اور آرزو کیا ہے

جناں کی کہتے ہیں یوں مجھ سے حضرت واعظ

کہ جیسے دیکھی نہ ہو یار کی گلی میں نے

لے چلا پھر مجھے دل یار دل آزار کے پاس

اب کے چھوڑ آؤں گا ظالم کو ستم گار کے پاس

جو نگاہ ناز کا بسمل نہیں

دل نہیں وہ دل نہیں وہ دل نہیں

آئنہ سامنے اب آٹھ پہر رہتا ہے

کہیں ایسا نہ ہو یہ مد مقابل ہو جائے

توبہ کی رندوں میں گنجائش کہاں

جب یہ آئے گی نکالی جائے گی

کل تو دیکھا تھا مبارکؔ بتکدے میں آپ کو

آج حضرت جا کے مسجد میں مسلماں ہو گئے

میری دشواری ہے دشواری مری

میری مشکل آپ کی مشکل نہیں

جاں نثاران محبت میں نہ ہو اپنا شمار

امتحاں اس لیے ظالم نے ہمارا نہ کیا

قیامت کی حقیقت جانتا ہوں

یہ اک ٹھوکر ہے میرے فتنہ گر کی

کیا کہیں کیا کیا کیا تیری نگاہوں نے سلوک

دل میں آئیں دل میں ٹھہریں دل میں پیکاں ہو گئیں

مسجد کی سر راہ بنا ڈال نہ زاہد

اس روک سے ہونے کے نہیں کوئے بتاں بند

کبھی دل کی کلی کھلی ہی نہیں

اعتبار بہار کون کرے

جو لڑکھڑائے قدم مے کدے میں مستوں کے

بغل میں حضرت ناصح تھے بڑھ کے تھام لیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے