Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mustafa Zaidi's Photo'

مصطفی زیدی

1929 - 1970 | کراچی, پاکستان

تیغ الہ آبادی کے نام سے بھی مشہور، پاکستان میں سی ایس پی افسر تھے، پراسرار حالات میں قتل کیے گئے

تیغ الہ آبادی کے نام سے بھی مشہور، پاکستان میں سی ایس پی افسر تھے، پراسرار حالات میں قتل کیے گئے

مصطفی زیدی کے اشعار

17.8K
Favorite

باعتبار

انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو

مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے

آندھی چلی تو نقش کف پا نہیں ملا

دل جس سے مل گیا وہ دوبارا نہیں ملا

مت پوچھ کہ ہم ضبط کی کس راہ سے گزرے

یہ دیکھ کہ تجھ پر کوئی الزام نہ آیا

دل کے رشتے عجیب رشتے ہیں

سانس لینے سے ٹوٹ جاتے ہیں

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

اس طرح ہوش گنوانا بھی کوئی بات نہیں

اور یوں ہوش سے رہنے میں بھی نادانی ہے

عشق ان ظالموں کی دنیا میں

کتنی مظلوم ذات ہے اے دل

یوں تو وہ ہر کسی سے ملتی ہے

ہم سے اپنی خوشی سے ملتی ہے

غم دوراں نے بھی سیکھے غم جاناں کے چلن

وہی سوچی ہوئی چالیں وہی بے ساختہ پن

روح کے اس ویرانے میں تیری یاد ہی سب کچھ تھی

آج تو وہ بھی یوں گزری جیسے غریبوں کا تیوہار

ہم انجمن میں سب کی طرف دیکھتے رہے

اپنی طرح سے کوئی اکیلا نہیں ملا

تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے

سعیٔ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں

تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہو گئی

میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بہ در گیا

جس دن سے اپنا طرز فقیرانہ چھٹ گیا

شاہی تو مل گئی دل شاہانہ چھٹ گیا

اترا تھا جس پہ باب حیا کا ورق ورق

بستر کے ایک ایک شکن کی شریک تھی

خدا کرے کہ ترے حسن کو زوال نہ ہو

میں چاہتا ہوں تجھے یوں ہی عمر بھر دیکھوں

ہم نے تو لٹ کے محبت کی روایت رکھ لی

ان سے تو پوچھیے وہ کس لیے پچھتاتے رہے

خود اپنے شب و روز گزر جائیں گے لیکن

شامل ہے مرے غم میں تری در بدری بھی

آنکھ جھک جاتی ہے جب بند قبا کھلتے ہیں

تجھ میں اٹھتے ہوئے خورشید کی عریانی ہے

کوئی رفیق بہم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

کبھی کبھی ترا غم ہی نہ ہو تو کیا کیجے

وہ اک طلسم تھا قربت میں اس کے عمر کٹی

گلے لگا کے اسے اس کی آرزو کرتے

کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے

فقط ایک دل تھا اپنا سو وہ مہرباں نہیں ہے

میرے نغمات کی تقدیر نہ پہنچے تجھ تک

میری فریاد کی قسمت کہ تجھے چھو آئی

اک موج خون خلق تھی کس کی جبیں پہ تھی

اک طوق فرد جرم تھا کس کے گلے میں تھا

ناوک ظلم اٹھا دشنۂ اندوہ سنبھال

لطف کے خنجر بے نام سے مت مار مجھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے