Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

نسیم دہلوی

1799/ 1800 - 1866 | دلی, انڈیا

نسیم دہلوی کے اشعار

292
Favorite

باعتبار

نام میرا سنتے ہی شرما گئے

تم نے تو خود آپ کو رسوا کیا

آنکھوں میں ہے لحاظ تبسم فزا ہیں لب

شکر خدا کے آج تو کچھ راہ پر ہیں آپ

کعبہ نہیں ہے زاہد غافل نشان دوست

دل ڈھونڈ عاشقوں کا یہی ہے مکان دوست

ربط باہم کے مزے باہم رہیں تو خوب ہیں

یاد رکھنا جان جاں گر میں نہیں تو تو نہیں

کفر و دیں کے قاعدے دونوں ادا ہو جائیں گے

ذبح وہ کافر کرے منہ سے کہیں تکبیر ہم

سیلاب چشم تر سے زمانہ خراب ہے

شکوے کہاں کہاں ہیں مرے آب دیدہ کے

ترا جمال بنا میں کبھی، کبھی احساں

غرض یہ تھی کہ مجھے برگزیدہ ہونا تھا

اے ساکنان چرخ معلی بچو بچو

طوفاں ہوا بلند مرے آب دیدہ کا

کبھی آغوش میں رہتا کبھی رخساروں پر

کاش اے آفت جاں میں ترا آنسو ہوتا

نسیمؔ دہلوی ہم موجد باب فصاحت ہیں

کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں

شوق شراب خواہش جام و سبو نہیں

ہے سب حرام جب سے کہ پہلو میں تو نہیں

تصدق ہونے والے پس نہ جائیں

اٹھائے ہاتھ سے دامن کو چلئے

نکلتے ہیں برابر اشک میری دونوں آنکھوں سے

متاع درد تلنے کی ترازو ہو تو ایسی ہو

اللہ رے تردد خاطر کی کثرتیں

تودہ بنا دیا مجھے گرد ملال کا

کار دیں یا فکر دنیا کیجیے

زندگی تھوڑی ہے کیا کیا کیجیے

مطلب کی بات کہہ نہ سکے ان سے رات بھر

معنی بھی منہ چھپائے ہوئے گفتگو میں تھا

خواہش وصل سے خط پڑھنے کے قابل نہ رہا

لپٹے الفاظ سے الفاظ مکرر ہو کر

میزان عدالت ہیں مرے دیدۂ پر آب

ہم وزن ہر آنسو کا ہر آنسو نظر آیا

آواز کی طرح سے بیٹھیں گے آج اے جاں

دیکھیں تو آپ کیوں کر ہم کو اٹھا ہی دیں گے

بھولتی ہیں کب نگاہیں چشم جادو خیز کی

ہم کو سامان فراموشی سب اپنا یاد ہے

رات دن بازوئے مژگاں پہ بندھا رہتا ہے

ہے مرا اشک مرے دیدۂ تر کا تعویذ

نہ یوں نیچی کیے گردن کو چلئے

ذرا اونچی کیے چتون کو چلئے

اب وہ گلی جائے خطر ہو گئی

حال سے لوگوں کو خبر ہو گئی

وہ جس رستے سے نکلے دیکھ لینا

کہ اس رستے میں پھر رستا نہ ہوگا

روز ہو جاتی ہیں ہم سے ایک دو اٹھکھیلیاں

نوجوانی آج تک باقی ہے چرخ پیر کی

مزہ مطلع کا دے فکر دو پہلو ہو تو ایسی ہو

رہیں حصے برابر بیت ابرو ہو تو ایسی ہو

حسن برہنگی کے اٹھاتے بڑے مزے

ہوتا نہ روح کو جو لباس بدن حجاب

آنسو پونچھیں گے کب تک احباب

ٹپکا نہ رکے گا چشم تر کا

پیار سے دشمن کے وہ عالم ترا جاتا رہا

ایسے لب چوسے کہ بوسوں کا مزا جاتا رہا

پڑ گئی چھینٹ تو اتنا نہ خفا ہو واعظ

مے رہے گی تری آغوش میں دختر ہو کر

گنگ ہیں جن کو خموشی کا مزا ہوتا ہے

دہن زخم میں خود قفل حیا ہوتا ہے

مطلب ہے مرا عارض پر نور کا جلوہ

عاشق ہوں ترا نام کو بندہ ہوں خدا کا

ایسے مسافران عدم تنگ دل گئے

منہ بھی کیا نہ عالم ایجاد کی طرف

اے چرخ پیر زور جوانی سے در گزر

اب پاس چاہیے تجھے پشت خمیدہ کا

کہتے ہیں جسے حسن وہ ہے شمع جہاں تاب

کہتے ہیں جسے عشق وہ پروانہ ہے اس کا

اے دل پھر ان سے دوستی کی

او خانہ خراب پھر وہی کی

ایک سے دو داغ دو سے چار پھر تو سیکڑوں

کھلتے کھلتے پھول سینے پر گلستاں ہو گیا

ادب بادہ پرستی نہ گیا مستی میں

صورت کعبہ طواف در مے خانہ ہے

ٹھنڈی کبھی نہ ہوں گی کیا گرمیاں تمہاری

آخر نسیمؔ کا دل کب تک جلائیے گا

تمہارے حسن نے ہر داؤں میں اسے جیتا

ہزار طرح سے گھٹ بڑھ کے بازی ہارا چاند

میں ہوں اک اور ہی لیلیٰ کا مائل

تسلی کیا مری محمل سے ہوگی

ابرو میں خم جبین میں چیں زلف میں شکن

آیا جو میرا نام تو کس کس میں بل پڑے

کثرت‌ دولت میں لطف خانہ بربادی بھی ہے

شہد کے ہونے سے لٹ جاتا ہے گھر زنبور کا

ساکن مسجد کبھی گہ معتکف ہے دیر کا

ملت و دین نسیمؔ دہلوی رندانہ ہے

مضمون کے بھی شعر اگر ہوں تو خوب ہیں

کچھ ہو نہیں گئی غزل عاشقانہ فرض

سیکڑوں من سے بھی زنجیر مری بھاری ہے

واہ کیا شوکت سامان گنہ گاری ہے

کیا اس حرام خور کو جز مردہ ہے نصیب

آیا نہ منہ میں گور کے لقمہ حلال کا

حب دنیا الفت زر دل سے دم بھر کم نہیں

اس پر اے زاہد ارادہ ہے خدا کی یاد کا

خوب ہی پھر تو سمجھتا میں دل دشمن سے

ایک ساعت مرے پہلو میں اگر تو ہوتا

حرفوں کے ملے جوڑ بڑھا حسن رقم کا

ہر لفظ کے پیوند میں بخیہ ہے قلم کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے