Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khursheed Akbar's Photo'

خورشید اکبر

1959 | پٹنہ, انڈیا

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

مابعد جدید اردو شاعر،نجات پسند شاعر،تعبیر نواز تخلیقی نظریے کے لیے معروف

خورشید اکبر کے اشعار

2.2K
Favorite

باعتبار

نہ جانے کتنے بھنور کو رلا کے آئی ہے

یہ میری کشتیٔ جاں خود کو پار کرتی ہوئی

یہ کیسا شہر ہے میں کس عجائب گھر میں رہتا ہوں

میں کس کی آنکھ کا پانی ہوں کس پتھر میں رہتا ہوں

شہر جب خود کفیل ہے صاحب

کون کس کا ملال کرتا ہے

شہر بے آب ہوا جاتا ہے

اپنی آنکھوں میں بچا لوں پانی

یہ میرا خاکداں رکھا ہوا ہے

اسی میں آسماں رکھا ہوا ہے

جزیرے اگ رہے ہیں پانیوں میں

مگر پختہ کنارا جا رہا ہے

اے شہر ستم زاد تری عمر بڑی ہو

کچھ اور بتا نقل مکانی کے علاوہ

ساحل سے سنا کرتے ہیں لہروں کی کہانی

یہ ٹھہرے ہوئے لوگ بغاوت نہیں کرتے

دنیا کو روندنے کا ہنر جانتا ہوں میں

لیکن یہ سوچتا ہوں کہ دنیا کے بعد کیا

ہم بھی ترے بیٹے ہیں ذرا دیکھ ہمیں بھی

اے خاک وطن تجھ سے شکایت نہیں کرتے

مرثیہ ہوں میں غلاموں کی خوش الہامی کا

شاہ کے حق میں قصیدہ نہیں ہونے والا

سسکتی آرزو کا درد ہوں فٹ پاتھ جیسا ہوں

کہ مجھ میں چھٹپٹاتا شہر کلکتہ بھی رہتا ہے

سہل کیا بار امانت کا اٹھانا ہے فلک

میں سنبھلتا ہوں مرے ساتھ سنبھلتی ہے زمیں

نہ جانے کیا لکھا تھا اس نے دیوار برہنہ پر

سلامت رہ نہ پائی ایک بھی تحریر پانی میں

روتا ہوں تو سیلاب سے کٹتی ہیں زمینیں

ہنستا ہوں تو ڈھ جاتے ہیں کہسار مری جاں

دلیلیں چھین کر میرے لبوں سے

وہ مجھ کو مجھ سے بہتر کاٹتا ہے

شام کے تیر سے زخمی ہے خورشیدؔ کا سینہ

نور سمٹ کر سرخ کبوتر بن جاتا ہے

یہاں تو رسم ہے زندوں کو دفن کرنے کی

کسی بھی قبر سے مردہ کہاں نکلتا ہے

لہو تیور بدلتا ہے کہاں تک

مرا بیٹا سیانا ہو تو دیکھوں

بدن میں سانس لیتا ہے سمندر

مری کشتی ہوا پر چل رہی ہے

بڑی بھولی ہے خرچیلی ضرورت

شہنشاہی کمائی مانگتی ہے

جو دن ہے خاک بیاباں جو رات ہے جنگل

وہ بے پناہ مرے گھر سے ہے زیادہ کیا

کشتی کی طرح تم مجھے دریا میں اتارو

میں بیچ بھنور میں تمہیں پتوار بناؤں

مٹھی سے ریت پاؤں سے کانٹا نکل نہ جائے

میں دیکھتا رہوں کہیں دنیا نکل نہ جائے

دل ہے کہ ترے پاؤں سے پازیب گری ہے

سنتا ہوں بہت دیر سے جھنکار کہیں کی

آتے آتے آئے گی دنیا داری

جاتے جاتے فاقہ مستی جائے گی

درد کا ذائقہ بتاؤں کیا

یہ علاقہ زباں سے باہر ہے

سمندر آسماں اس پر ستاروں کا سفینہ

مرا مہتاب غم ہے بیکرانی دیکھنے میں

خدا کے غائبانے میں کسی دن

سنو کیا شہر سارا بولتا ہے

زندگی! تجھ کو مگر شرم نہیں آتی کیا

کیسی کیسی تری تصویر نکل آئی ہے

غریبی کاٹنا آساں نہیں ہے

وہ ساری عمر پتھر کاٹتا ہے

سلگتی پیاس نے کر لی ہے مورچہ بندی

اسی خطا پہ سمندر خلاف رہتا ہے

قرآن کا مفہوم انہیں کون بتائے

آنکھوں سے جو چہروں کی تلاوت نہیں کرتے

میرے اس کے بیچ کا رشتہ اک مجبور ضرورت ہے

میں سوکھے جذبوں کا ایندھن وہ ماچس کی تیلی سی

چہرے ہیں کہ سو رنگ میں ہوتے ہیں نمایاں

آئینے مگر کوئی سیاست نہیں کرتے

خود سے لکھنے کا اختیار بھی دے

ورنہ قسمت کی تختیاں لے جا

غیب کا ایسا پرندہ ہے زمیں پر انساں

آسمانوں کو جو شہ پر پہ اٹھائے ہوئے ہے

وہ ایک آئنہ چہرے کی بات کرتا ہے

وہ ایک آئنہ پتھر سے ہے زیادہ کیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے