aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "गुमनाम"
محسن نقوی
1947 - 1996
شاعر
مصحفی غلام ہمدانی
1747 - 1824
بیدم شاہ وارثی
1876 - 1936
غلام محمد قاصر
1941 - 1999
میر حسن
1717 - 1786
صوفی غلام مصطفےٰ تبسم
1899 - 1978
غلام عباس
1909 - 1982
مصنف
احمد راہی
1923 - 2002
قلق میرٹھی
1832/3 - 1880
غلام حسین ساجد
born.1952
راسخ عظیم آبادی
1748 - 1823
غلام بھیک نیرنگ
1876 - 1952
غلام مرتضی راہی
born.1937
غلام ربانی تاباں
1914 - 1993
ذاکر خان ذاکر
born.1975
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیےہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
خود کو جانا جدا زمانے سےآ گیا تھا مرے گمان میں کیا
کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔغیر معروف سے گمنام سے پہلے پہلے
جب زلف کی کالک میں گھل جائے کوئی راہیبدنام سہی لیکن گمنام نہیں ہوتا
تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھیگمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر
شاعر،ادیب ،صحافی،نغمہ نگار، غلام بیگم بادشاہ اور جھانسی کی رانی جیسی فلموں کے مکالمہ نگار
غلام علی کی گائی ہوئیں ٢٠ مشهور غزلیں
اٹھارہویں صدی کے بڑے شاعروں میں شامل، میرتقی میر کے ہم عصر
गुम-नामگم نام
nameless, anonymous
गुमनामگمنام
unknown of fame
ignoble, nameless
obscure, unknown, anonymous
اردو غزل کا تاریخی ارتقا
غلام آسی رشیدی
شاعری تنقید
تحفۃ اللذات محبوبیہ (خوان نعمت آصفیہ)
غلام محبوب حیدرآبادی
دستر خوان
کلیات غلام عباس
افسانہ
دیوان فرید
خواجہ غلام فرید
دیوان
اقبال کا تصور خودی
غلام عمر خاں
فلسفہ
اقبال اور قرآن
غلام مصطفی خاں
تحقیق
آپ بیتی کہ جگ بیتی
گمنام حیدرآبادی
شاعری
جاڑے کی چاندنی
مطالب بانگ درا
غلام رسول مہر
شرح
مطالب بال جبریل
روضۃ الاولیاء
غلام علی آزاد بلگرامی
خود نوشت
دھنک
نصابی کتاب
مقابیس المجالس
تصوف
دیوان فرید اردو
الفاظ کا مزاج
غلام ربانی
زبان
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوںعشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازاریہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دندیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
’’بس بس۔‘‘ کلثوم تھک گئی۔ ’’بس بس۔‘‘مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گدگدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہوگئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہوگیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔
راوی، غالب آگرے میں رونق افروز ہیں۔ دیوان سنگھ راجہ کے یہاں غالب کے اعزاز میں ایک مخصوص غیرطرحی مشاعرہ ہے۔ افہام الدین ساحر، احمد شیون، زین العابدین شورش، غلام غوث بے خبر، شریک ہیں۔ غالب باتیں کر رہے ہیں۔ غالب، بھئی ہم کو ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے نصیحت کی تھی کہ زہد و ورع منظور نہیں۔ تاہم قانع فسق و فجور ہیں۔ پیو۔ کھاؤ۔ مزے اڑاؤ۔ مگر یہ یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو۔ سو میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتاہوں کہ اگر مغفرت ہوگئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور جیرن ہوجائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی۔ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ، چشم بدور، وہی ایک حور۔
مرزا صاحب کھانا کھارہے تھے۔ چھٹی رسان نے ایک لفافہ لاکردیا۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے، جیسے پہلے آچکے ہیں۔ لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو۔ سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا۔ پوچھا کس کا خط ہے؟ اور کیا لکھا ہے؟ ‘‘شاگرد کو اس کے اظہار میں تامل ہوا۔ فور...
اے دریغا وہ رند شاہد بازبے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کرکے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روز نامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو اک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دلچسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظربندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔
رہ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔمتاع درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
قصہ میرے بھتیجے سے شروع ہوتا ہے۔ میرا بھتیجا یوں دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہ ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے اور میں تو اس کے نزدیک ...
مجھ ایسے کتنے ہی گمنام بچے کھیلے ہیںاسی زمیں سے اسی میں سپرد خاک ہوئے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books