عشق میں میر صاحب
میر صاحب کو اردو کا خدائے سخن کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے؛ یہ منتخب اشعار پڑھئے اور میر کو ایک عاشق کو طور پر دیکھنے کا لطف لیجئے
-
موضوعات : زلفاور 1 مزید
-
موضوعات : استقبالاور 2 مزید
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تشریح
’’ناکام‘‘ اور ’’کام لیا‘‘ میں رعایت ظاہر ہے۔ پہلے مصرع میں ’’سلیقے‘‘ کا لفظ بہت خوب ہے، کیوں کہ اگر کسی کم کار آمد چیز سے کوئی اہم کام نکال لیا جائے تو کہتے ہیں کہ ’’فلاں کو کام کرنے کا سلیقہ ہے‘‘۔ ’’کام لیا‘‘ بھی بہت خوب ہے، کیوں کہ یہ واضح نہیں کیا کہ ناکامی ہی کو کامیابی سمجھ لیا، اور اس طرح کام نکال لیا، یا ناکامیوں پر صبر کر لیا۔ محبت میں نبھنا بھی خالی ازلطف نہیں، کیونکہ یہاں بھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ معشوق سے نبھی، یا محض زندگی نبھی، یا اپنے آپ سے نبھی۔ بہت بلیغ شعر ہے۔ لہجے میں وقار بھی ہے اور ایک طرح کی چالاکی بھی۔ محمد حسن عسکری نے اس شعر کے بارے میں خوب لکھا ہے کہ ’’میر نفی میں اثبات ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے یہاں شکست تو مل جائے گی، لیکن شکست خوردگی نہیں۔ ان کی افسردگی ایک نئی تلاش کا بہانہ بنتی ہے۔‘‘
’’سلیقہ‘‘ کے معنی ’’عادت، سرشت‘‘ بھی ہیں۔ یہ معنی بھی یہاں مناسب ہیں۔ اسی سیاق و سباق میں لفظ ’’سلیقہ‘‘ میر نے ایک اور شعر میں خوبی سے استعمال کیا ہے؎
تمنائے دل کے لئے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے
(دیوان اوّل)
شمس الرحمن فاروقی
تشریح
’’ناکام‘‘ اور ’’کام لیا‘‘ میں رعایت ظاہر ہے۔ پہلے مصرع میں ’’سلیقے‘‘ کا لفظ بہت خوب ہے، کیوں کہ اگر کسی کم کار آمد چیز سے کوئی اہم کام نکال لیا جائے تو کہتے ہیں کہ ’’فلاں کو کام کرنے کا سلیقہ ہے‘‘۔ ’’کام لیا‘‘ بھی بہت خوب ہے، کیوں کہ یہ واضح نہیں کیا کہ ناکامی ہی کو کامیابی سمجھ لیا، اور اس طرح کام نکال لیا، یا ناکامیوں پر صبر کر لیا۔ محبت میں نبھنا بھی خالی ازلطف نہیں، کیونکہ یہاں بھی یہ ظاہر نہیں کیا کہ معشوق سے نبھی، یا محض زندگی نبھی، یا اپنے آپ سے نبھی۔ بہت بلیغ شعر ہے۔ لہجے میں وقار بھی ہے اور ایک طرح کی چالاکی بھی۔ محمد حسن عسکری نے اس شعر کے بارے میں خوب لکھا ہے کہ ’’میر نفی میں اثبات ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے یہاں شکست تو مل جائے گی، لیکن شکست خوردگی نہیں۔ ان کی افسردگی ایک نئی تلاش کا بہانہ بنتی ہے۔‘‘
’’سلیقہ‘‘ کے معنی ’’عادت، سرشت‘‘ بھی ہیں۔ یہ معنی بھی یہاں مناسب ہیں۔ اسی سیاق و سباق میں لفظ ’’سلیقہ‘‘ میر نے ایک اور شعر میں خوبی سے استعمال کیا ہے؎
تمنائے دل کے لئے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے
(دیوان اوّل)
شمس الرحمن فاروقی
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
-
موضوع : دیدار
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
تشریح
میر کی عشقیہ شاعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں عاشق اپنی روایتی، مبالغہ آمیز صفات (جفا کشی، وحشت، آوارہ گردی، اشک بازی، خستگی، بدنامی، زخم خوردگی مقتولی، وغیرہ) کے ساتھ تو نظر آتا ہی ہے، لیکن جگہ جگہ و روزمرہ کی زندگی کا انسان نظر آتا ہے، یعنی ایسا انسان جو شاعری کے روایتی، خیالی عاشق کے بجائے کسی ناول کا جیتا جاگتا کردار معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ عاشق کی شخصیت، یا اس کے حالات، یا اس کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور شخص شعر کے متکلم کا کام کرتا ہے۔ اس طرح افسانوی کردار نگاری کا سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی ڈرامائی کردار نگاری، حاصل ہوتا ہے۔ اس خصوصیت میں میر کا کوئی حریف نہیں، یہ ایسی انفرادیت ہے جس کا شائبہ بھی دوسروں میں نہیں۔ شعرِ زیر بحث میں یہ خوبی پوری طرح نمایاں ہے۔ منظر نامہ مذکور نہیں، لیکن شعر میں تمام اشارے موجود ہیں۔ وہ شخص آپس میں باتیں کر رہے ہیں، عاشق تھکا ہارا سو رہا ہے۔ اچانک گفتگو کے دوران معشوق کا نام کسی کی زبان پر آتا ہے، اور عاشق چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اس چونکنے پر جو ردعمل ہے وہ بھی انتہائی واقفیت کا حامل ہے۔ گفتگو کرنے والے سمجھتے ہیں (یا شاید تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں) کہ عاشق نے کوئی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مکالمے کی برجستگی قابل داد ہے۔ پھر معنوی اشارے دیکھئے۔ عاشق کی نیند کچی ہے، نیند میں بھی اسے معشوق کا خیال رہتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ معشوق کا نام خود میر کی زبان پر عالم خواب میں آیا ہو، اور نام لیتے ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی ہو۔ ایسی صورت میں مکالمے کی ایک نئی صورت پیدا ہوتی ہے کہ شاعر خود کو ایک شخصِ غیر فرض کرتا ہے اور میر کوئی دوسرا شخص ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
تشریح
میر کی عشقیہ شاعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں عاشق اپنی روایتی، مبالغہ آمیز صفات (جفا کشی، وحشت، آوارہ گردی، اشک بازی، خستگی، بدنامی، زخم خوردگی مقتولی، وغیرہ) کے ساتھ تو نظر آتا ہی ہے، لیکن جگہ جگہ و روزمرہ کی زندگی کا انسان نظر آتا ہے، یعنی ایسا انسان جو شاعری کے روایتی، خیالی عاشق کے بجائے کسی ناول کا جیتا جاگتا کردار معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ عاشق کی شخصیت، یا اس کے حالات، یا اس کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور شخص شعر کے متکلم کا کام کرتا ہے۔ اس طرح افسانوی کردار نگاری کا سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی ڈرامائی کردار نگاری، حاصل ہوتا ہے۔ اس خصوصیت میں میر کا کوئی حریف نہیں، یہ ایسی انفرادیت ہے جس کا شائبہ بھی دوسروں میں نہیں۔ شعرِ زیر بحث میں یہ خوبی پوری طرح نمایاں ہے۔ منظر نامہ مذکور نہیں، لیکن شعر میں تمام اشارے موجود ہیں۔ وہ شخص آپس میں باتیں کر رہے ہیں، عاشق تھکا ہارا سو رہا ہے۔ اچانک گفتگو کے دوران معشوق کا نام کسی کی زبان پر آتا ہے، اور عاشق چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اس چونکنے پر جو ردعمل ہے وہ بھی انتہائی واقفیت کا حامل ہے۔ گفتگو کرنے والے سمجھتے ہیں (یا شاید تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں) کہ عاشق نے کوئی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مکالمے کی برجستگی قابل داد ہے۔ پھر معنوی اشارے دیکھئے۔ عاشق کی نیند کچی ہے، نیند میں بھی اسے معشوق کا خیال رہتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ معشوق کا نام خود میر کی زبان پر عالم خواب میں آیا ہو، اور نام لیتے ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی ہو۔ ایسی صورت میں مکالمے کی ایک نئی صورت پیدا ہوتی ہے کہ شاعر خود کو ایک شخصِ غیر فرض کرتا ہے اور میر کوئی دوسرا شخص ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
تشریح
شعلے کا پرپیچ و تاب ہونا آگ کی تیزی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس بات کو بھی کہ پروانے کے دل میں اس قدر گرمی تھی کہ اس کے جل اٹھنے پر جو شعلہ اٹھا وہ بھی بے چین اور بےقرار تھا۔ ’’پیچ و تاب‘‘ کا لفظ پروانے کے دل میں جذبات کے تلاطم کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ (پیچ و تاب کھانا‘‘ یعنی بے قرار ہونا، انگاروں پر لوٹنا۔‘‘) اگر شمع اور پروانہ کو معشوق اور عاشق کا استعارہ فرض کیا جائے تو مراد یہ ہوئی کہ معشوق کا سامنا ہوتے ہی عاشق کی ہستی مٹ کر صرف ایک شعلۂ جوالہ بن گئی۔ خوب شعر کہا ہے۔ بیان کا ڈرامائی انداز بھی بہت خوب ہے، کئی باتیں ان کہی چھوڑ دی ہیں (مثلاً منظر کا صرف ایک حصہ بیان کیا ہے، یا یہ ظاہر نہیں کیا کہ پروانہ شمع کے شعلے سے جل اٹھایا صرف نزدیک پہنچنے پر اس کا یہ حال ہوا۔) بیان کے اختصار نے شدت پیدا کردی ہے، یہاں تک کہ یہ بھی ظاہر نہیں کیا کہ پروانہ شمع کی طرف کیوں گیا تھا۔ جب کہ غالب نے بات واضح کردی ہے؎
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہوگئے
شعرکا ڈرامائی لہجہ اس وجہ سے کچھ مزید پر اثر ہوگیا کہ جو واقعہ بعد میں پیش آیا (پروانے کا جل اٹھنا) اسے پہلے بیان کیا ہے، اور جو واقعہ پہلے پیش آیا (پروانے کا شمع کی طرف جانا) اسے بعد میں رکھا ہے۔ واقعے کو بیان کرنے کا انداز بھی میر کا اپنا ہے، گویا دو شخص آپس میں تبصرہ کر رہے ہوں، یا کوئی عینی شاہد کسی تیسرے شخص کو واقعے کی روداد سنا رہا ہو۔
قائم چاند پوری نے میر کا مضمون براہ راست باندھا ہے، لیکن وہ میر کے مصرع اولیٰ کا جواب نہ لاسکے۔ میر کے یہاں پیکر بہت متحرک اور بصری ہے، اور اسلوب بہت ڈرامائی۔ اس ڈرامائیت کو دوسرے مصرعے سے اور تقویت ملی ہے، مصرع ثانی میں لفظ ’’تو‘‘ انتہائی قوت رکھتا ہے۔ قائم نے مصرع اولیٰ میں یہ لفظ رکھا ہے، اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن ان کا شعر پیکر سے محروم ہے؎
شمع تک جاتے تو دیکھا تھا ہم اس کو قائم
پھر نہ معلوم ہوئی کچھ خبر پروانہ
سید محمد خان رند نے بھی اس مضمون کو نبھانے کی کوشش کی ہے؎
اور میں راز نیاز عشق سے واقف نہیں
یہ تو دیکھا ہے سرپروانہ تھا اور پائے شمع
رند کا دوسرا مصرع عمدہ ہے۔ لیکن مصرعے میں تصنع آ گیا ہے، اس لئے ان کا شعر قائم سے بھی کمتر رہ گیا۔ دوسرے مصرعے کا ڈرامائی اور مبہم انداز بہرحال بہت خوب ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
تشریح
شعلے کا پرپیچ و تاب ہونا آگ کی تیزی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس بات کو بھی کہ پروانے کے دل میں اس قدر گرمی تھی کہ اس کے جل اٹھنے پر جو شعلہ اٹھا وہ بھی بے چین اور بےقرار تھا۔ ’’پیچ و تاب‘‘ کا لفظ پروانے کے دل میں جذبات کے تلاطم کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ (پیچ و تاب کھانا‘‘ یعنی بے قرار ہونا، انگاروں پر لوٹنا۔‘‘) اگر شمع اور پروانہ کو معشوق اور عاشق کا استعارہ فرض کیا جائے تو مراد یہ ہوئی کہ معشوق کا سامنا ہوتے ہی عاشق کی ہستی مٹ کر صرف ایک شعلۂ جوالہ بن گئی۔ خوب شعر کہا ہے۔ بیان کا ڈرامائی انداز بھی بہت خوب ہے، کئی باتیں ان کہی چھوڑ دی ہیں (مثلاً منظر کا صرف ایک حصہ بیان کیا ہے، یا یہ ظاہر نہیں کیا کہ پروانہ شمع کے شعلے سے جل اٹھایا صرف نزدیک پہنچنے پر اس کا یہ حال ہوا۔) بیان کے اختصار نے شدت پیدا کردی ہے، یہاں تک کہ یہ بھی ظاہر نہیں کیا کہ پروانہ شمع کی طرف کیوں گیا تھا۔ جب کہ غالب نے بات واضح کردی ہے؎
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہوگئے
شعرکا ڈرامائی لہجہ اس وجہ سے کچھ مزید پر اثر ہوگیا کہ جو واقعہ بعد میں پیش آیا (پروانے کا جل اٹھنا) اسے پہلے بیان کیا ہے، اور جو واقعہ پہلے پیش آیا (پروانے کا شمع کی طرف جانا) اسے بعد میں رکھا ہے۔ واقعے کو بیان کرنے کا انداز بھی میر کا اپنا ہے، گویا دو شخص آپس میں تبصرہ کر رہے ہوں، یا کوئی عینی شاہد کسی تیسرے شخص کو واقعے کی روداد سنا رہا ہو۔
قائم چاند پوری نے میر کا مضمون براہ راست باندھا ہے، لیکن وہ میر کے مصرع اولیٰ کا جواب نہ لاسکے۔ میر کے یہاں پیکر بہت متحرک اور بصری ہے، اور اسلوب بہت ڈرامائی۔ اس ڈرامائیت کو دوسرے مصرعے سے اور تقویت ملی ہے، مصرع ثانی میں لفظ ’’تو‘‘ انتہائی قوت رکھتا ہے۔ قائم نے مصرع اولیٰ میں یہ لفظ رکھا ہے، اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن ان کا شعر پیکر سے محروم ہے؎
شمع تک جاتے تو دیکھا تھا ہم اس کو قائم
پھر نہ معلوم ہوئی کچھ خبر پروانہ
سید محمد خان رند نے بھی اس مضمون کو نبھانے کی کوشش کی ہے؎
اور میں راز نیاز عشق سے واقف نہیں
یہ تو دیکھا ہے سرپروانہ تھا اور پائے شمع
رند کا دوسرا مصرع عمدہ ہے۔ لیکن مصرعے میں تصنع آ گیا ہے، اس لئے ان کا شعر قائم سے بھی کمتر رہ گیا۔ دوسرے مصرعے کا ڈرامائی اور مبہم انداز بہرحال بہت خوب ہے۔
شمس الرحمن فاروقی