Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب پر اشعار

خواب صرف وہی نہیں ہے

جس سے ہم نیند کی حالت میں گزرتے ہیں بلکہ جاگتے ہوئے بھی ہم زندگی کا بڑا حصہ رنگ برنگے خوابوں میں گزارتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیروں کے پیچھے سر گرداں رہتے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب ایسے ہی شعروں پر مشتمل ہے جو خواب اور تعبیر کی کشمکش میں پھنسے انسان کی روداد سناتے ہیں ۔ یہ شاعری پڑھئے ۔ اس میں آپ کو اپنے خوابوں کے نقوش بھی جھلملاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔

ایسا بھی کبھی ہو میں جسے خواب میں دیکھوں

جاگوں تو وہی خواب کی تعبیر بتائے

مصطفی شہاب

آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج

کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں

آشفتہ چنگیزی

وقت پیری شباب کی باتیں

ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں

شیخ ابراہیم ذوقؔ

آئنہ آئنہ تیرتا کوئی عکس

اور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے

عتیق اللہ

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے

ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف

ایسا ہو زندگی میں کوئی خواب ہی نہ ہو

اندھیاری رات میں کوئی مہتاب ہی نہ ہو

خلیل مامون

مسکاتی آنکھوں میں اکثر

دیکھے ہم نے روتے خواب

افضل ہزاروی

روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو

میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری

جلیل مانک پوری

مجھے اس خواب نے اک عرصہ تک بے تاب رکھا ہے

اک اونچی چھت ہے اور چھت پر کوئی مہتاب رکھا ہے

خاور اعجاز

نیند کا رستہ چھوٹا ہے

جس میں خواب کی ٹھوکر ہے

سوپنل تیواری

آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام

اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

سراج لکھنوی

میں ہوں اک پیکر خیال و خواب

اور کتنی بڑی حقیقت ہوں

خورشید ربانی

کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ

دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا

خورشید ربانی

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی

رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی

خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

احمد فراز

آنکھوں میں جو بھر لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے

یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں

جاں نثار اختر

بارہا تیرا انتظار کیا

اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح

پروین شاکر

بناؤں کس کو شب غم انیس تنہائی

کہ ساتھ ہے مری تقدیر وہ بھی خواب میں ہے

جلیل مانک پوری

خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں

کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی

آشفتہ چنگیزی

رات کو سونا نہ سونا سب برابر ہو گیا

تم نہ آئے خواب میں آنکھوں میں خواب آیا تو کیا

جلیل مانک پوری

لوگ کرتے ہیں خواب کی باتیں

ہم نے دیکھا ہے خواب آنکھوں سے

صابر دت

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

غلام محمد قاصر

ہم کس کو دکھاتے شب فرقت کی اداسی

سب خواب میں تھے رات کو بیدار ہمیں تھے

تعشق لکھنوی

بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل

اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر

ابرار احمد

کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے

وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے

سلیم کوثر

کبھی دکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں

کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے آ

کمار پاشی

دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو

جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

فاطمہ حسن

زیبؔ مجھے ڈر لگنے لگا ہے اپنے خوابوں سے

جاگتے جاگتے درد رہا کرتا ہے مرے سر میں

زیب غوری

کسی کو خواب میں اکثر پکارتے ہیں ہم

عطاؔ اسی لیے سوتے میں ہونٹ ہلتے ہیں

احمد عطا

زندگی خواب دیکھتی ہے مگر

زندگی زندگی ہے خواب نہیں

شبنم رومانی

عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی

کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا

آشفتہ چنگیزی

بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے

خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے

ابو محمد سحر

کیسا جادو ہے سمجھ آتا نہیں

نیند میری خواب سارے آپ کے

ابن مفتی

دکھائی خواب میں دی تھی ٹک اک منہ کی جھلک ہم کوں

نہیں طاقت انکھیوں کے کھولنے کی اب تلک ہم کوں

آبرو شاہ مبارک

رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال

مرے بخت جاگے میں سویا کیا

امیر مینائی

نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے

بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے

خلیل الرحمن اعظمی

شورش وقت ہوئی وقت کی رفتار میں گم

دن گزرتے ہیں ترے خواب کے آثار میں گم

سعید احمد

ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے

میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے

اظہر عنایتی

لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے

ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا

تشریح

میر کی عشقیہ شاعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں عاشق اپنی روایتی، مبالغہ آمیز صفات (جفا کشی، وحشت، آوارہ گردی، اشک بازی، خستگی، بدنامی، زخم خوردگی مقتولی، وغیرہ) کے ساتھ تو نظر آتا ہی ہے، لیکن جگہ جگہ و روزمرہ کی زندگی کا انسان نظر آتا ہے، یعنی ایسا انسان جو شاعری کے روایتی، خیالی عاشق کے بجائے کسی ناول کا جیتا جاگتا کردار معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ عاشق کی شخصیت، یا اس کے حالات، یا اس کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور شخص شعر کے متکلم کا کام کرتا ہے۔ اس طرح افسانوی کردار نگاری کا سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی ڈرامائی کردار نگاری، حاصل ہوتا ہے۔ اس خصوصیت میں میر کا کوئی حریف نہیں، یہ ایسی انفرادیت ہے جس کا شائبہ بھی دوسروں میں نہیں۔ شعرِ زیر بحث میں یہ خوبی پوری طرح نمایاں ہے۔ منظر نامہ مذکور نہیں، لیکن شعر میں تمام اشارے موجود ہیں۔ وہ شخص آپس میں باتیں کر رہے ہیں، عاشق تھکا ہارا سو رہا ہے۔ اچانک گفتگو کے دوران معشوق کا نام کسی کی زبان پر آتا ہے، اور عاشق چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اس چونکنے پر جو ردعمل ہے وہ بھی انتہائی واقفیت کا حامل ہے۔ گفتگو کرنے والے سمجھتے ہیں (یا شاید تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں) کہ عاشق نے کوئی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مکالمے کی برجستگی قابل داد ہے۔ پھر معنوی اشارے دیکھئے۔ عاشق کی نیند کچی ہے، نیند میں بھی اسے معشوق کا خیال رہتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ معشوق کا نام خود میر کی زبان پر عالم خواب میں آیا ہو، اور نام لیتے ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی ہو۔ ایسی صورت میں مکالمے کی ایک نئی صورت پیدا ہوتی ہے کہ شاعر خود کو ایک شخصِ غیر فرض کرتا ہے اور میر کوئی دوسرا شخص ہے۔

شمس الرحمن فاروقی

میر تقی میر

جس کی کچھ تعبیر نہ ہو

خواب اسی کو کہتے ہیں

ظہیرؔ رحمتی

سرائے دل میں جگہ دے تو کاٹ لوں اک رات

نہیں ہے شرط کہ مجھ کو شریک خواب بنا

حسن نعیم

اتنا بیداریوں سے کام نہ لو

دوستو خواب بھی ضروری ہے

امیر قزلباش

جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ

اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی

انور سدید

میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے

ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا

احمد فراز

اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو

تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو

منور رانا

ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا

اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے

اختر انصاری

ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا

وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا

حکیم منظور

ترک تعلقات میں مہجور تو ہوئے

لیکن خیال و خواب میں وہ روبرو رہے

خان رضوان

پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب

ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی

غلام محمد قاصر

کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں

کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا

شکیل بدایونی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے