خواب پر اشعار
خواب صرف وہی نہیں ہے
جس سے ہم نیند کی حالت میں گزرتے ہیں بلکہ جاگتے ہوئے بھی ہم زندگی کا بڑا حصہ رنگ برنگے خوابوں میں گزارتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیروں کے پیچھے سر گرداں رہتے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب ایسے ہی شعروں پر مشتمل ہے جو خواب اور تعبیر کی کشمکش میں پھنسے انسان کی روداد سناتے ہیں ۔ یہ شاعری پڑھئے ۔ اس میں آپ کو اپنے خوابوں کے نقوش بھی جھلملاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
ایسا بھی کبھی ہو میں جسے خواب میں دیکھوں
جاگوں تو وہی خواب کی تعبیر بتائے
آنکھ کھلتے ہی بستیاں تاراج
کوئی لذت نہیں ہے خوابوں میں
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
-
موضوعات : بڑھاپااور 1 مزید
خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : تنہائی
ایسا ہو زندگی میں کوئی خواب ہی نہ ہو
اندھیاری رات میں کوئی مہتاب ہی نہ ہو
-
موضوع : چاند
مسکاتی آنکھوں میں اکثر
دیکھے ہم نے روتے خواب
-
موضوع : آنسو
روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو
میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری
-
موضوع : قسمت
مجھے اس خواب نے اک عرصہ تک بے تاب رکھا ہے
اک اونچی چھت ہے اور چھت پر کوئی مہتاب رکھا ہے
-
موضوع : چاند
نیند کا رستہ چھوٹا ہے
جس میں خواب کی ٹھوکر ہے
میں ہوں اک پیکر خیال و خواب
اور کتنی بڑی حقیقت ہوں
کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا
-
موضوعات : چراغاور 1 مزید
اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
-
موضوع : رات
آنکھوں میں جو بھر لوگے تو کانٹوں سے چبھیں گے
یہ خواب تو پلکوں پہ سجانے کے لیے ہیں
بارہا تیرا انتظار کیا
اپنے خوابوں میں اک دلہن کی طرح
بناؤں کس کو شب غم انیس تنہائی
کہ ساتھ ہے مری تقدیر وہ بھی خواب میں ہے
خواب جتنے دیکھنے ہیں آج سارے دیکھ لیں
کیا بھروسہ کل کہاں پاگل ہوا لے جائے گی
رات کو سونا نہ سونا سب برابر ہو گیا
تم نہ آئے خواب میں آنکھوں میں خواب آیا تو کیا
کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں
ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں
-
موضوع : آرزو
بھر لائے ہیں ہم آنکھ میں رکھنے کو مقابل
اک خواب تمنا تری غفلت کے برابر
-
موضوع : آنکھ
کہانی لکھتے ہوئے داستاں سناتے ہوئے
وہ سو گیا ہے مجھے خواب سے جگاتے ہوئے
کبھی دکھا دے وہ منظر جو میں نے دیکھے نہیں
کبھی تو نیند میں اے خواب کے فرشتے آ
-
موضوع : نیند
دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا
-
موضوع : فریب
زندگی خواب دیکھتی ہے مگر
زندگی زندگی ہے خواب نہیں
عجیب خواب تھا تعبیر کیا ہوئی اس کی
کہ ایک دریا ہواؤں کے رخ پہ بہتا تھا
بلائے جاں تھی جو بزم تماشا چھوڑ دی میں نے
خوشا اے زندگی خوابوں کی دنیا چھوڑ دی میں نے
دکھائی خواب میں دی تھی ٹک اک منہ کی جھلک ہم کوں
نہیں طاقت انکھیوں کے کھولنے کی اب تلک ہم کوں
رہا خواب میں ان سے شب بھر وصال
مرے بخت جاگے میں سویا کیا
نہیں اب کوئی خواب ایسا تری صورت جو دکھلائے
بچھڑ کر تجھ سے کس منزل پر ہم تنہا چلے آئے
ہر ایک رات کو مہتاب دیکھنے کے لیے
میں جاگتا ہوں ترا خواب دیکھنے کے لیے
-
موضوعات : چانداور 1 مزید
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
تشریح
میر کی عشقیہ شاعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں عاشق اپنی روایتی، مبالغہ آمیز صفات (جفا کشی، وحشت، آوارہ گردی، اشک بازی، خستگی، بدنامی، زخم خوردگی مقتولی، وغیرہ) کے ساتھ تو نظر آتا ہی ہے، لیکن جگہ جگہ و روزمرہ کی زندگی کا انسان نظر آتا ہے، یعنی ایسا انسان جو شاعری کے روایتی، خیالی عاشق کے بجائے کسی ناول کا جیتا جاگتا کردار معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ عاشق کی شخصیت، یا اس کے حالات، یا اس کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور شخص شعر کے متکلم کا کام کرتا ہے۔ اس طرح افسانوی کردار نگاری کا سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی ڈرامائی کردار نگاری، حاصل ہوتا ہے۔ اس خصوصیت میں میر کا کوئی حریف نہیں، یہ ایسی انفرادیت ہے جس کا شائبہ بھی دوسروں میں نہیں۔ شعرِ زیر بحث میں یہ خوبی پوری طرح نمایاں ہے۔ منظر نامہ مذکور نہیں، لیکن شعر میں تمام اشارے موجود ہیں۔ وہ شخص آپس میں باتیں کر رہے ہیں، عاشق تھکا ہارا سو رہا ہے۔ اچانک گفتگو کے دوران معشوق کا نام کسی کی زبان پر آتا ہے، اور عاشق چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اس چونکنے پر جو ردعمل ہے وہ بھی انتہائی واقفیت کا حامل ہے۔ گفتگو کرنے والے سمجھتے ہیں (یا شاید تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں) کہ عاشق نے کوئی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مکالمے کی برجستگی قابل داد ہے۔ پھر معنوی اشارے دیکھئے۔ عاشق کی نیند کچی ہے، نیند میں بھی اسے معشوق کا خیال رہتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ معشوق کا نام خود میر کی زبان پر عالم خواب میں آیا ہو، اور نام لیتے ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی ہو۔ ایسی صورت میں مکالمے کی ایک نئی صورت پیدا ہوتی ہے کہ شاعر خود کو ایک شخصِ غیر فرض کرتا ہے اور میر کوئی دوسرا شخص ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
جس کی کچھ تعبیر نہ ہو
خواب اسی کو کہتے ہیں
اتنا بیداریوں سے کام نہ لو
دوستو خواب بھی ضروری ہے
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
-
موضوعات : بہاراور 1 مزید
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
ہاں کبھی خواب عشق دیکھا تھا
اب تک آنکھوں سے خوں ٹپکتا ہے
-
موضوعات : آنکھاور 2 مزید
ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا
وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا
پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب
ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی
-
موضوع : تصویر
کیا حسیں خواب محبت نے دکھایا تھا ہمیں
کھل گئی آنکھ تو تعبیر پہ رونا آیا
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید