Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

افضل خان کے اشعار

14.2K
Favorite

باعتبار

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں

ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں

بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو

محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا

شکست زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا

تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا

اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی

اس کو کہتے ہیں انتظار میاں

دیر سے آنے پر وو خفا تھا آخر مان گیا

آج میں اپنے باپ سے ملنے قبرستان گیا

اتنی ساری یادوں کے ہوتے بھی جب دل میں

ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی

محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی

بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی

وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں

میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں

مگر جو بیچ میں کمبخت شاعری ہے نا

ہمارا دل ذرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر

یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی

نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ

میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ

یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے

میں بھی شہزادہ نہیں ہوں تو بھی شہزادی نہیں

جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں

شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے

تو روز جس کے تجسس میں آ رہا ہے یہاں

ہزار بار بتایا ہے وہ نہیں ہوں میں

کسی نے خواب میں آکر مجھے یہ حکم دیا

تم اپنے اشک بھی بھیجا کرو دعاؤں کے ساتھ

تو مجھے تنگ نہ کر اے دل آوارہ مزاج

تجھ کو اس شہر میں لانا ہی نہیں چاہیے تھا

ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضل

یہ خاکدان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ

ساتھیو اب مجھے رستے میں اترنا ہوگا

ڈوبتی ناؤ بچانے کا نہیں حل کوئی اور

یہ جو کچھ لوگ خیالوں میں رہا کرتے ہیں

ان کا گھر بار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پر آخر

شجر پہ لکھا ہوا ہے شجر برائے فروخت

ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک

بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے

اسی لیے ہمیں احساس جرم ہے شاید

ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا

یہ کہہ دیا ہے مرے آنسوؤں نے تنگ آ کر

ہمیں بوقت ضرورت نکالئے صاحب

تری مسند پہ کوئی اور نہیں آ سکتا

یہ مرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا

تیرے جانے سے زیادہ ہیں نہ کم پہلے تھے

ہم کو لاحق ہیں وہی اب بھی جو غم پہلے تھے

یہ نکتہ اک قصہ گو نے مجھ کو سمجھایا

ہر کردار کے اندر ایک کہانی ہوتی ہے

دالان میں سبزہ ہے نہ تالاب میں پانی

کیوں کوئی پرندہ مری دیوار پہ اترے

یہ بھی خود کو حوصلہ دینے کا حیلہ ہے کہ میں

انگلیوں سے لکھ رہا ہوں چار سو لا تقنطو

سزائے موت پہ فریاد سے تو بہتر ہے

گلے لگا کے کہوں دار کو مبارک باد

بھاؤ تاؤ میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی

ہاں مگر تجھ سے خریدار کو نا کیسے ہو

اک وڈیرہ کچھ مویشی لے کے بیٹھا ہے یہاں

گاؤں کی جتنی بھی آبادی ہے آبادی نہیں

ذرا یہ دوسرا مصرع درست فرمائیں

مرے مکان پہ لکھا ہے گھر برائے فروخت

چھوڑ کر مجھ کو ترے صحن میں جا بیٹھا ہے

پڑ گئی جیسے ترے سایۂ دیوار میں جان

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے