تمام
تعارف
غزل136
نظم8
شعر145
مزاحیہ شاعری3
ای-کتاب73
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 15
آڈیو 20
ویڈیو 10
قطعہ37
رباعی53
قصہ8
گیلری 1
بلاگ2
دیگر
مخمس1
اکبر الہ آبادی کے اشعار
رہ و رسم محبت ان حسینوں سے میں کیا رکھوں
جہاں تک دیکھتا ہوں نفع ان کا ہے ضرر اپنا
ہر چند بگولہ مضطر ہے اک جوش تو اس کے اندر ہے
اک وجد تو ہے اک رقص تو ہے بے چین سہی برباد سہی
اس گلستاں میں بہت کلیاں مجھے تڑپا گئیں
کیوں لگی تھیں شاخ میں کیوں بے کھلے مرجھا گئیں
یہ ہے کہ جھکاتا ہے مخالف کی بھی گردن
سن لو کہ کوئی شے نہیں احسان سے بہتر
سدھاریں شیخ کعبہ کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا ہم خدا کی شان دیکھیں گے
پردے کا مخالف جو سنا بول اٹھیں بیگم
اللہ کہ مار اس پر علی گڑھ کے حوالے
محبت کا تم سے اثر کیا کہوں
نظر مل گئی دل دھڑکنے لگا
مرعوب ہو گئے ہیں ولایت سے شیخ جی
اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب کو
تمہارے وعظ میں تاثیر تو ہے حضرت واعظ
اثر لیکن نگاہ ناز کا بھی کم نہیں ہوتا
کچھ الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے
یاں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امرود کے
بت کدہ میں شور ہے اکبرؔ مسلماں ہو گیا
بے وفاؤں سے کوئی کہہ دے کہ ہاں ہاں ہو گیا
تم ناک چڑھاتے ہو مری بات پہ اے شیخ
کھینچوں گی کسی روز میں اب کان تمہارے
مجھ کو تو دیکھ لینے سے مطلب ہے ناصحا
بد خو اگر ہے یار تو ہو خوب رو تو ہے
اگر مذہب خلل انداز ہے ملکی مقاصد میں
تو شیخ و برہمن پنہاں رہیں دیر و مساجد میں
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
-
موضوع : طنز و مزاح
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا
ڈنر سے تم کو فرصت کم یہاں فاقے سے کم خالی
چلو بس ہو چکا ملنا نہ تم خالی نہ ہم خالی
-
موضوع : طنز و مزاح
لگاوٹ بہت ہے تری آنکھ میں
اسی سے تو یہ فتنہ زا ہو گئی
ڈال دے جان معانی میں وہ اردو یہ ہے
کروٹیں لینے لگے طبع وہ پہلو یہ ہے
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔ
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
ایمان بیچنے پہ ہیں اب سب تلے ہوئے
لیکن خریدو ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سے
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
لیڈروں کی دھوم ہے اور فالوور کوئی نہیں
سب تو جنرل ہیں یہاں آخر سپاہی کون ہے
میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے
سید کی سرگزشت کو حالی سے پوچھئے
غازی میاں کا حال ڈفالی سے پوچھئے
ناز کیا اس پہ جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
مرد ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
نگاہیں کاملوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے کی
کہیں چھپتا ہے اکبرؔ پھول پتوں میں نہاں ہو کر
شیخ جی گھر سے نہ نکلے اور مجھ سے کہہ دیا
آپ بی اے پاس ہیں اور بندہ بی بی پاس ہے
میری یہ بے چینیاں اور ان کا کہنا ناز سے
ہنس کے تم سے بول تو لیتے ہیں اور ہم کیا کریں
ان کی آنکھوں کی لگاوٹ سے حذر اے اکبرؔ
دین سے کرتی ہے دل کو یہی غماز جدا
کعبے سے جو بت نکلے بھی تو کیا کعبہ ہی گیا جو دل سے نکل
افسوس کہ بت بھی ہم سے چھٹے قبضے سے خدا کا گھر بھی گیا
کمر یار ہے باریکی ث غائب ہر چند
مگر اتنا تو کہوں گا کہ وہ معدوم نہیں
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
مسجد کا ہے خیال نہ پروائے چرچ ہے
جو کچھ ہے اب تو کالج و ٹیچر میں خرچ ہے
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
ان کو کیا کام ہے مروت سے اپنی رخ سے یہ منہ نہ موڑیں گے
جان شاید فرشتے چھوڑ بھی دیں ڈاکٹر فیس کو نہ چھوڑیں گے
کالج سے آ رہی ہے صدا پاس پاس کی
عہدوں سے آ رہی ہے صدا دور دور کی
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
جوانی کی دعا لڑکوں کو نا حق لوگ دیتے ہیں
یہی لڑکے مٹاتے ہیں جوانی کو جواں ہو کر
دختر رز نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
اب تو ہے عشق بتاں میں زندگانی کا مزہ
جب خدا کا سامنا ہوگا تو دیکھا جائے گا
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے