Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

Filter : Date

Section:

پسندیدہ ویڈیو
This video is playing from YouTube

عمیر نجمی

Galat Kar Rahi Ho Chun Ke Mujhe | Umair Najmi Ki Shayari | Rekhta Studio

ویڈیو شیئر کیجیے

آج کے منتخب ۵ شعر

آج کا لفظ

لبریز

  • labrez
  • लबरेज़

معنی

brimful, over-flowing

دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت

ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے

لفظ شیئر کیجیے

کیا آپ کو معلوم ہے؟

نستعلیق وہ خوبصورت رسم الخط ہے جس میں اردو لکھی جاتی ہے، جو چودھویں اور پندرہویں صدی میں ایران میں بنایا گیا تھا۔ ’نسخ‘ وہ رسم الخط ہے، جس میں عام طور پر عربی لکھی جاتی ہے۔ اور ’تعلیق‘ ایک فارسی رسم الخط ہے۔ دونوں مل کے ’نستعلیق‘ بن گئے۔ اردو میں باسلیقہ اور مہذب لوگوں کو بھی ’نستعلیق‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی بہت نفیس اور صاف طبیعت کا مالک۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

سارا

سارہ شگفتہ ایک جدید پاکستانی شاعرہ تھیں۔ تقسیم ہند کے دوران ان کا کنبہ پنجاب سے کراچی ہجرت کر گیا۔ ان کی زندگی جدوجہد سے بھری ہوئی تھی۔ ایک غریب اور ان پڑھ خاندان سے تعلق رکھنے والی سارہ شگفتہ تعلیم کے ذریعہ معاشرتی طور پر ایک مقام حاصل کرنا چاہتی تھیں، لیکن وہ میٹرک پاس نہ کر سکیں۔ ان کی شادی 17 سال کی عمر میں ہی کر دی گئی۔ اس کے بعد تین ناکام شادیاں مزید ہوئیں۔ وہ اپنے نوزائیدہ بیٹے کی موت اور اپنے شوہروں کی بے حسی پر سخت رنجیدہ تھیں۔ ان کے شوہروں اور معاشرے کے  برے سلوک نے انہیں نظمیں کہنے کی ترغیب دی اور وہ غیر معمولی جوش کے ساتھ لکھتی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ  ذہنی بیماری سے دوچار ہوئیں  جسکی وجہ سے مینٹل اسپتال میں بھی داخل ہونا پڑا۔ خودکشی کی چند ناکام کوششوں کے بعد، سارہ نے بالآخر محض 29 برسی کی عمر میں خودکشی کرلی۔ ان کی شخصیت اور شاعری کو بنیاد بنا کر .امریتا پریتم نے ''ایک تھی سارہ'' کے نام سے کتاب لکھی۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

امیر

اردو کی پہلی قابل ذکر مثال صوفی، شاعر ماہر موسیقی حضرت امیر خسرو کی ہے ۔ اردو کی پہلی غزل بھی انہیں سے منسوب ہے ۔ امیر خسرو نے مختلف اصناف غزل ، پہیلیاں ، گیت وغیرہ میں طبع آزمائی  کی۔ آپ خواجہ حضرت نظام الدین کے مرید تھے اور بادشاہ وقت سے بھی رسم و راہ رکھتے تھے ۔ ان کی قبر بھی حضرت نظام الدین کے بغل میں ہے۔

کیا آپ کو معلوم ہے؟

اردو میں ملاح مانجھی یا جہاز چلانے والے کو کہتے ہیں۔ اس لفظ کا تعلق عربی  زبان کے لفظ 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ چونکہ سمندر کا پانی کھارا ہوتا ہے، پہلے تو سمندر سے نمک بنانے والوں کو 'ملاح' کہا گیا۔ پھر سمندر میں جانے والوں کو ملاح کہا جانے لگا۔ اب تو میٹھے پانی کی جھیل میں کشتی چلانے والے کو بھی ملاح ہی کہتے ہیں۔ لفظ 'ملاحت' بھی اردو ادب میں جانا پہچانا ہے۔ اس کا رشتہ بھی 'ملح' یعنی نمک سے ہے۔ یعنی سانولا پن، خوبصورتی۔ بہت سے اشعار میں اسے مختلف انداز سے برتا گیا ہے۔
کشتی اور پانی کے سفر سے متعلق ایک اور لفظ اردو شاعری میں بہت ملتا ہے۔ 'نا خدا' جو ناوؑ اور خدا سے مل کر بنا ہے، اور فارسی سے آیا ہے۔ یعنی کشتی کا مالک یا سردار۔
تمہیں تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا 
بچا سکو تو بچا لو کہ ڈوبتا ہوں میں 
آسرار الحق مجاز

کیا آپ کو معلوم ہے؟

میر

میر تقی میر کے بارے میں عام تصور ہے کہ وہ دل شکستہ، دنیا سے بیزار انسان تھے جو درد و الم میں ڈوبے اشعار ہی کہتے تھے۔ لیکن دنیا کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ میر کو جانوروں سے بھی گہری دلچسپی تھی، جو ان کی مثنویوں اور خود نوشتی گھریلو نظموں میں بہت خلاقانہ انداز سے نظر آتی ہے۔ دوسرے شعرا نے بھی جانوروں کے بارے میں لکھا ہے، لیکن میر کے اشعار میں جب  جانور زندگی کا حصہ بن کر آتے ہیں تو ان میں انسانی صفات اور خصوصیات کا بھی رنگ آ جاتا ہے۔ میر کی  مثنوی 'موہنی بلی' کی بلی بھی ایک کردار ہی معلوم ہوتی ہے۔ 'کپی کا بچہ' میں بندر کا بچہ بھی کافی حد تک انسان نظر آتا ہے۔ مثنوی 'مور نامہ' ایک رانی اور ایک مور کے عشق کی المیہ داستان ہے، جس میں دونوں آخر میں جل مرتے ہیں۔ اس کے علاوہ  مرغ، بکری وغیرہ پر بھی ان کی مثنویاں ہیں۔
ان کی  مشہور مثنوی 'اژدر نامہ' جانوروں کے نام، ان کی عادات اور خصوصیات کے ذکر سے پُر ہے۔ اس میں مرکزی کردار اژدہے کے علاوہ  30 جانوروں کے نام شامل ہیں۔ محمد حسین آزاد نے لکھا ہے کہ میر نے اس میں خود کو اژدہا کہا اور دوسرے تمام  شعرا کو حشرات الارض مانا ہے۔ حالانکہ اس میں کسی کا نام نہیں لیا گیا ہے۔

آج کی پیش کش

ہم کو کس کے غم نے مارا یہ کہانی پھر سہی

کس نے توڑا دل ہمارا یہ کہانی پھر سہی

پوری غزل دیکھیں

مسرور انور کے بارے میں شیئر کریں

ای-کتابیں

اقبال دلہن

بشیر الدین احمد دہلوی 

1908 اخلاقی کہانی

کلیات انور شعور

انور شعور 

2015 کلیات

مغل تہذیب

محبوب اللہ مجیب 

1965

اودھوت کا ترانہ

 

1958 نظم

شمارہ نمبر۔002

ڈاکٹر محمد حسن 

1970 عصری ادب

ای-کتابیں
بولیے