Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Abul Hasanat Haqqi's Photo'

ابو الحسنات حقی

کانپور, انڈیا

ابو الحسنات حقی کے اشعار

1.1K
Favorite

باعتبار

یہ بات الگ ہے کسی دھارے پہ نہیں ہے

دنیا کسی کمزور اشارے پہ نہیں ہے

دور رہتا ہے مگر جنبش لب بوس و کنار

ڈوبتا رہتا ہے دریا میں کنارا کیا کیا

میں قتل ہو کے بھی شرمندہ اپنے آپ سے ہوں

کہ اس کے بعد تو سارا زوال ہے اس کا

ضمیر خاک شہہ دو سرا میں روشن ہے

مرا خدا مرے حرف دعا میں روشن ہے

میں اپنی ماں کے وسیلے سے زندہ تر ٹھہروں

کہ وہ لہو مرے صبر و رضا میں روشن ہے

وہ بے خبر ہے مری جست و خیز سے شاید

یہ کون ہے جو مقابل مرے کھڑا ہوا ہے

بدن خود اپنی ہی تجسیم کر نہیں پاتے

قریب آیا تو آنکھوں کو خواب میں نے دیا

کبھی وہ خوش بھی رہا ہے کبھی خفا ہوا ہے

کہ سارا مرحلہ طے مجھ سے برملا ہوا ہے

کبھی نہ خالی ملا بوئے ہم نفس سے دماغ

تمام باغ میں جیسے کوئی چھپا ہوا ہے

اپنے منظر سے الگ ہوتا نہیں ہے کوئی رنگ

اپنی آنکھوں کے سوا باد بہاری اور کیا

بجتی ہوئی خون کی روانی

خواہش کی گرفت میں بدن ہے

یہ سچ ہے اس سے بچھڑ کر مجھے زمانہ ہوا

مگر وہ لوٹنا چاہے تو پھر زمانہ بھی کیا

شب کو ہر رنگ میں سیلاب تمہارا دیکھیں

آنکھ کھل جائے تو دریا نہ کنارا دیکھیں

جانے کیا صورت حالات رقم تھی اس میں

جو ورق چاک ہوا اس کو دوبارا دیکھیں

میرے جنوں کا سلسلہ مرحلہ وار ہو گیا

پہلے زمین بجھ گئی بعد میں آسماں بجھا

نقش تو سارے مکمل ہیں اب الجھن یہ ہے

کس کو آباد کرے اور کسے ویرانی دے

مجھے بھی رفتہ رفتہ آ گیا ہے

خود اپنے کام کو دشوار کرنا

حقیؔٔ دل گرفتہ کے بس میں نہ جانے کب نہیں

ہجر میں شاد کام تھا وصل کے درمیاں بجھا

دیوار کا بوجھ بام پر ہے

یہ گھر بھی ہوا خراب کیسا

میں اپنے زہر سے واقف ہوں وہ سمجھتا نہیں

ہے میرے کیسۂ صد کام میں شرافت بھی

بے نیاز دہر کر دیتا ہے عشق

بے زروں کو لعل و زر دیتا ہے عشق

مجھ کو درویش سمجھنے والا

خوش گمانی کا صلا چاہتا ہے

وہ ایک ڈوبتی آواز باز گشت کہ آ

سوال میں نے کیا تھا جواب میں نے دیا

وہ مہربان نہیں ہے تو پھر خفا ہوگا

کوئی تو رابطہ اس کو بحال رکھنا ہے

میری وحشت بھی سکوں نا آشنا میری طرح

میرے قدموں سے بندھی ہے ذمہ داری اور کیا

یہ عجز ہے کہ قناعت ہے کچھ نہیں کھلتا

بہت دنوں سے وہ خیر و خبر سے باہر ہے

خود اپنی لوح تمنا پہ کھل کے دیکھوں گا

کسی کے جبر نے لکھا تھا رائیگاں مجھ کو

پھول کی پتی پہ کوئی زخم ڈال

آئنے میں رنگ کا اظہار کر

وہ کشتی سے دیتے تھے منظر کی داد

سو ہم نے بھی گھر کو سفینہ کیا

وہ آ رہا تھا مگر میں نکل گیا کہیں اور

سو زخم ہجر سے بڑھ کر عذاب میں نے دیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے