Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akbar Ali Khan Arshi Zadah's Photo'

اکبر علی خان عرشی زادہ

1939 - 1997 | رام پور, انڈیا

شاعر اور محقق، غالب کے دیوان اور ان کے خطوط کے حوالے سے کئی تحقیقی کام کیے

شاعر اور محقق، غالب کے دیوان اور ان کے خطوط کے حوالے سے کئی تحقیقی کام کیے

اکبر علی خان عرشی زادہ کے اشعار

298
Favorite

باعتبار

وہ ایک لمحہ مجھے کیوں ستا رہا ہے کہ جو

نہیں کے بعد مگر اس کی ہاں سے پہلے تھا

یہ پڑی ہیں صدیوں سے کس لیے ترے میرے بیچ جدائیاں

کبھی اپنے گھر تو مجھے بلا کبھی راستے مرے گھر کے دیکھ

ضبط جنوں سے اندازوں پر در تو بند نہیں ہوتے

تو مجھ سے بڑھ کر رسوا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

یاد بن کے پہلو میں موسموں کے بستر پر

کروٹیں بدلتی ہیں مہربانیاں ساری

سر خار سے سر سنگ سے جو ہے میرا جسم لہو لہو

کبھی تو بھی تو مرے سنگ میل کبھی رنگ میرے سفر کے دیکھ

وہ سن رہا ہے مری بے زبانیوں کی زباں

جو حرف و صوت و صدا و زباں سے پہلے تھا

میں تجھ کو بھول نہ پاؤں یہی سزا ہے مری

میں اپنے آپ سے لیتا ہوں انتقام اپنا

اسی تلاش میں پہونچا ہوں عشق تک تیرے

کہ اس حوالے سے پا جاؤں میں دوام اپنا

جو بار دوش رہا سر وہ کب تھا شوریدہ

بہا نہ جس سے لہو وہ رگ گلو کیا تھی

لوٹا جو اس نے مجھ کو تو آباد بھی کیا

اک شخص رہزنی میں بھی رہبر لگا مجھے

صراحئ مئے ناب و سفینہ ہائے غزل

یہ حرف‌ حسن مقدر لکھا ہے کس کے لیے

میرے تصور نے بخشی ہے تنہائی کو بھی اک محفل

تو محفل محفل تنہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

کبھی خوشبو کبھی سایہ کبھی پیکر بن کر

سبھی ہجروں میں وصالوں میں مرے پاس رہو

وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا

وہیں سے پھر یہ سفر ہے جہاں سے پہلے تھا

تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز

یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے

لاؤ اک لمحے کو اپنے آپ میں ڈوب کے دیکھ آؤں

خود مجھ میں ہی میرا خدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

جب آ رہی ہیں بہاریں لیے پیام جنوں

یہ پیرہن کو مرے حاجت رفو کیا تھی

عجیب اس سے تعلق ہے کیا کہا جائے

کچھ ایسی صلح نہیں ہے کچھ ایسی جنگ نہیں

حرف دشنام سے یوں اس نے نوازا ہم کو

یہ ملامت ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

وہی مایوسی کا عالم وہی نومیدی کا رنگ

زندگی بھی کسی مفلس کی دعا ہو جیسے

غم ایام پہ یوں خوش ہیں ترے دیوانے

غم ایام بھی اک تیری ادا ہو جیسے

دھنک کی طرح نکھرتا ہے شب کو خوابوں میں

وہی جو دن کو مری چشم تر میں رہتا ہے

یہ اک سوال ہے شکوہ نہیں گلہ بھی نہیں

مرے خدا ترا لطف و عطا ہے کس کے لیے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے