اکھلیش تیواری کے اشعار
صبح سویرا دفتر بیوی بچے محفل نیندیں رات
یار کسی کو مشکل بھی ہوتی ہے اس آسانی پر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہنسنا رونا پانا کھونا مرنا جینا پانی پر
پڑھیے تو کیا کیا لکھا ہے دریا کی پیشانی پر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عقل والوں میں ہے گزر میرا
میری دیوانگی سنبھال مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر دم بدن کی قید کا رونا فضول ہے
موسم صدائیں دے تو بکھر جانا چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ شکل وہ شناخت وہ پیکر کی آرزو
پتھر کی ہو کے رہ گئی پتھر کی آرزو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھسلن یہ کناروں پہ یہ ٹھہراؤ ندی کا
سب صاف اشارہ ہیں کہ گہرائی بہت ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے سبب کچھ بھی نہیں ہوتا ہے یا یوں کہیے
آگ لگتی ہے کہیں پر تو دھواں ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خیال آیا ہمیں بھی خدا کی رحمت کا
سنائی جب بھی پڑی ہے اذان پنجرے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو کیا پلٹ کے وہی دن پھر آنے والے ہیں
کئی دنوں سے ہے دل بے قرار پہلے سا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قدم بڑھا تو لوں آبادیوں کی سمت مگر
مجھے وہ ڈھونڈھتا تنہائیوں میں آیا تو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہیں سے راہ کوئی آسماں کو جاتی تھی
خیال آیا ہمیں سیڑھیاں اترتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے
یہ بند کمرہ عجب روشنی سے بھر جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جسے پرچھائیں سمجھے تھے حقیقت میں نہ پیکر ہو
پرکھنا چاہئے تھا آپ کو اس شے کو چھو کر بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ