Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

میر محمدی بیدار

1732/3 - 1797

میر محمدی بیدار کے اشعار

1.5K
Favorite

باعتبار

باپ کا ہے فخر وہ بیٹا کہ رکھتا ہو کمال

دیکھ آئینے کو فرزند رشید سنگ ہے

آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا

دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند

لوگ جانیں ہیں خواب کرتا ہوں

حواس و ہوش کو چھوڑ آپ دل گیا اس پاس

جب اہل فوج ہی مل جائیں کیا سپاہ کرے

خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں

ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش

اپنے اوپر تو رحم کر ظالم

دیکھ مت بار بار آئینہ

ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا

ایک ملنے کو نہ کم کیجئے گا

آپ کو آپ میں نہیں پاتا

جی میں یاں تک مرے سمائے ہو

یہ بھی آنا ہے کوئی اس سے نہ آنا بہتر

آئے دم بھی نہ ہوا کہتے ہو جاؤں جاؤں

منت و عاجزی و زاری و آہ

تیرے آگے ہزار کر دیکھا

نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے

اتنی رخصت دیجئے بندہ نوازی کیجئے

سب نے لوٹے ان کے جلوہ کے مزے

شربت دیدار جوٹھا ہو گیا

یاد کرتے ہیں تجھے دیر و حرم میں شب و روز

اہل تسبیح جدا صاحب زنار جدا

روزی رساں خدا ہے فکر معاش مت کر

اس خار کا تو دل میں خوف خراش مت کر

جینے کی نہیں امید ہم کو

تیر اس کا جگر کے پار نکلا

مشاطہ دیکھ شانے سے تیرا کٹے گا ہاتھ

ٹوٹا گر ایک بال کبھو زلف یار کا

بیدارؔ راہ عشق کسی سے نہ طے ہوئی

صحرا میں قیس کوہ میں فرہاد رہ گیا

اس کھیل سے کہہ اپنی مژہ سے کہ باز آئے

عالم کو نیزہ بازی سے زیر و زبر کیا

مے کدے میں جو ترے حسن کا مذکور ہوا

سنگ غیرت سے مرا شیشۂ دل چور ہوا

جاتا ہے چلا قافلۂ اشک شب و روز

معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کہاں کا

جاتے ہو سیر باغ کو اغیار ساتھ ہو

جو حکم ہو تو یہ بھی گنہ گار ساتھ ہو

عبث مل مل کے دھوتا ہے تو اپنے دست نازک کو

نہیں جانے کی سرخی ہاتھ سے خون شہیداں کی

محراب ابروئے بت کافر ادا کو دیکھ

کعبہ کا شیخ باندھ کے احرام رہ گیا

جہاں وہ ہے نہیں واں کفر و اسلام

عبث جھگڑا ہے شیخ و برہمن میں

کیا ہنگامۂ گل نے مرا جوش جنوں تازہ

ادھر آئی بہار ایدھر گریباں کا رفو ٹوٹا

ٹک اے بت اپنے مکھڑے سے اٹھا دے گوشۂ برقع

کہ ان مسجد نشینوں کو ہے دعویٰ دین داری کا

دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے

نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا

جنوں نے دست کاری ایسی بھی کی

نہ تھا گویا گریباں پیرہن میں

عجب کی ساحری اس من ہرن کی چشم فتاں نے

دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی

کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں

پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی

نہیں کچھ ابر ہی شاگرد میری اشک باری کا

سبق لیتی ہے مجھ سے برق بھی آ بے قراری کا

عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینہ سے

کہ جوں شراب نمایاں ہو آبگینہ سے

سایہ سے اپنے وحشت کرتے ہیں مثل آہو

مشکل ہے ہاتھ لگنا از خود رمیدکاں کا

گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے

وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو

ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں

کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے

شراب و ساقیٔ مہ رو جو ساتھ ہوں بیدارؔ

تو خوش نما ہے شب ماہتاب میں دریا

ہے خیال اس کا مانع گفتار

ورنہ سو قوت بیاں ہے مجھے

گر وہ بت گلنار قبا جلوہ نما ہو

دیں خرقۂ اسلام کو اہل حرم آتش

اگر چلی ہے تو چل یوں کہ پات بھی نہ ہلے

خلل نہ لائے صبا تو فراغ میں گل کے

محبت ایسے کی بیدارؔ سخت مشکل ہے

جو اپنی جان سے گزرے وہ اس کی چاہ کرے

سب لٹا عشق کے میدان میں عریاں آیا

رہ گیا پاس مرے دامن صحرا باقی

کیا ہو گر کوئی گھڑی یاں بھی کرم فرماؤ

آپ اس راہ سے آخر تو گزر کرتے ہیں

ہو گئے دور میں اس چشم کے مے خانے خراب

نہ کہیں شیشہ رہا اور نہ کہیں جام رہا

تیغ بر دوش سپر ہاتھ میں دامن گرداں

یہ بنا صورت خونخوار کہاں جانا ہے

نشۂ حسن میں سرشار چلا جاتا ہے

شب تاریک ہے دل دار خدا کو سونپا

Recitation

بولیے