میر محمدی بیدار کے اشعار
باپ کا ہے فخر وہ بیٹا کہ رکھتا ہو کمال
دیکھ آئینے کو فرزند رشید سنگ ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا
ہیں تصور میں اس کے آنکھیں بند
لوگ جانیں ہیں خواب کرتا ہوں
حواس و ہوش کو چھوڑ آپ دل گیا اس پاس
جب اہل فوج ہی مل جائیں کیا سپاہ کرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں
ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش
-
موضوع : عید
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم پہ سو ظلم و ستم کیجئے گا
ایک ملنے کو نہ کم کیجئے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آپ کو آپ میں نہیں پاتا
جی میں یاں تک مرے سمائے ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ بھی آنا ہے کوئی اس سے نہ آنا بہتر
آئے دم بھی نہ ہوا کہتے ہو جاؤں جاؤں
منت و عاجزی و زاری و آہ
تیرے آگے ہزار کر دیکھا
نشہ میں جی چاہتا ہے بوسہ بازی کیجئے
اتنی رخصت دیجئے بندہ نوازی کیجئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سب نے لوٹے ان کے جلوہ کے مزے
شربت دیدار جوٹھا ہو گیا
یاد کرتے ہیں تجھے دیر و حرم میں شب و روز
اہل تسبیح جدا صاحب زنار جدا
روزی رساں خدا ہے فکر معاش مت کر
اس خار کا تو دل میں خوف خراش مت کر
جینے کی نہیں امید ہم کو
تیر اس کا جگر کے پار نکلا
-
موضوع : تیر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مشاطہ دیکھ شانے سے تیرا کٹے گا ہاتھ
ٹوٹا گر ایک بال کبھو زلف یار کا
بیدارؔ راہ عشق کسی سے نہ طے ہوئی
صحرا میں قیس کوہ میں فرہاد رہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کھیل سے کہہ اپنی مژہ سے کہ باز آئے
عالم کو نیزہ بازی سے زیر و زبر کیا
مے کدے میں جو ترے حسن کا مذکور ہوا
سنگ غیرت سے مرا شیشۂ دل چور ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جاتا ہے چلا قافلۂ اشک شب و روز
معلوم نہیں اس کا ارادہ ہے کہاں کا
جاتے ہو سیر باغ کو اغیار ساتھ ہو
جو حکم ہو تو یہ بھی گنہ گار ساتھ ہو
عبث مل مل کے دھوتا ہے تو اپنے دست نازک کو
نہیں جانے کی سرخی ہاتھ سے خون شہیداں کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محراب ابروئے بت کافر ادا کو دیکھ
کعبہ کا شیخ باندھ کے احرام رہ گیا
جہاں وہ ہے نہیں واں کفر و اسلام
عبث جھگڑا ہے شیخ و برہمن میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا ہنگامۂ گل نے مرا جوش جنوں تازہ
ادھر آئی بہار ایدھر گریباں کا رفو ٹوٹا
ٹک اے بت اپنے مکھڑے سے اٹھا دے گوشۂ برقع
کہ ان مسجد نشینوں کو ہے دعویٰ دین داری کا
دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے
نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جنوں نے دست کاری ایسی بھی کی
نہ تھا گویا گریباں پیرہن میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عجب کی ساحری اس من ہرن کی چشم فتاں نے
دیا کاجل سیاہی لے کے آنکھوں سے غزالاں کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں
پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہیں کچھ ابر ہی شاگرد میری اشک باری کا
سبق لیتی ہے مجھ سے برق بھی آ بے قراری کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عیاں ہے شکل تری یوں ہمارے سینہ سے
کہ جوں شراب نمایاں ہو آبگینہ سے
سایہ سے اپنے وحشت کرتے ہیں مثل آہو
مشکل ہے ہاتھ لگنا از خود رمیدکاں کا
گر کسی غیر کو فرماؤ گے تب جانو گے
وے ہمیں ہیں کہ بجا لاویں جو ارشاد کرو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہوں میں وہ دیوانۂ نازک مزاج گل رخاں
کیجئے زنجیر جس کو سایۂ زنجیر سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شراب و ساقیٔ مہ رو جو ساتھ ہوں بیدارؔ
تو خوش نما ہے شب ماہتاب میں دریا
ہے خیال اس کا مانع گفتار
ورنہ سو قوت بیاں ہے مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گر وہ بت گلنار قبا جلوہ نما ہو
دیں خرقۂ اسلام کو اہل حرم آتش
اگر چلی ہے تو چل یوں کہ پات بھی نہ ہلے
خلل نہ لائے صبا تو فراغ میں گل کے
محبت ایسے کی بیدارؔ سخت مشکل ہے
جو اپنی جان سے گزرے وہ اس کی چاہ کرے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سب لٹا عشق کے میدان میں عریاں آیا
رہ گیا پاس مرے دامن صحرا باقی
کیا ہو گر کوئی گھڑی یاں بھی کرم فرماؤ
آپ اس راہ سے آخر تو گزر کرتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہو گئے دور میں اس چشم کے مے خانے خراب
نہ کہیں شیشہ رہا اور نہ کہیں جام رہا
تیغ بر دوش سپر ہاتھ میں دامن گرداں
یہ بنا صورت خونخوار کہاں جانا ہے
نشۂ حسن میں سرشار چلا جاتا ہے
شب تاریک ہے دل دار خدا کو سونپا