قمر عباس قمر کے اشعار
ہم وہ ناداں تھے جو شہروں کو سکوں جانتے تھے
تم نہیں آئے ادھر تم نے سمجھ داری کی
بہت غرور تھا سورج کو اپنی شدت پر
سو ایک پل ہی سہی بادلوں سے ہار گیا
میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش
میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی
-
موضوع : وحشت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انا نے دونوں کے بیچ نفرت کی ایک دیوار کھینچ دی ہے
ادھر سے آنے کا مسئلہ ہے ادھر سے جانے کا مسئلہ ہے
میں رو پڑوں گا بہت بھینچ کے گلے نہ لگا
میں پہلے جیسا نہیں ہوں کسی کا دکھ ہے مجھے
مجھے بچا لے مرے یار سوز امشب سے
کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا
-
موضوع : وحشت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں رات گئے کس کو صدا دیتے ہیں اکثر
وہ کون ہمارا تھا جو واپس نہیں آیہ
مجنوں سے یہ کہنا کہ مرے شہر میں آ جائے
وحشت کے لیے ایک بیابان ابھی ہے
شدت غم سے کوئی غم بھی نہیں ہو پایا
جانے والے ترا ماتم بھی نہیں ہو پایا
پلٹنے والے پرندوں پہ بد حواسی ہے
میں اس زمیں کا کہیں آخری شجر تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے
پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے
تشنہ لب ایسا کہ ہونٹوں پہ پڑے ہیں چھالے
مطمئن ایسا ہوں دریا کو بھی حیرانی ہے
پہاڑ پیڑ ندی ساتھ دے رہے ہیں مرا
یہ تیری اور مرا آخری سفر تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ احتجاج عجب ہے خلاف تیغ ستم
زمیں میں جذب نہیں ہو رہا ہے خوں میرا
اس کے ٹھہراؤ سے تھم جاتی ہے سب موج حیات
یعنی دریا میں نہیں سانس میں گہرائی ہے
الگ الگ سی ہے سمتوں کا اب سفر درپیش
تمہارا ہاتھ مرے ہاتھ سے جدا بھی نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب کہ ممکن ہے زمیں خون کی پیاسی نہ رہے
اک قبیلے نے میری بات نہیں مانی ہے
-
موضوع : خون
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ