Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sarvat Husain's Photo'

ثروت حسین

1949 - 1996 | کراچی, پاکستان

ثروت حسین کے اشعار

17.8K
Favorite

باعتبار

سورما جس کے کناروں سے پلٹ آتے ہیں

میں نے کشتی کو اتارا ہے اسی پانی میں

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

میں ہار گیا جنگ مگر دل نہیں ہارا

جسے انجام تم سمجھتی ہو

ابتدا ہے کسی کہانی کی

موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے

ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا

پاؤں ساکت ہو گئے ثروتؔ کسی کو دیکھ کر

اک کشش مہتاب جیسی چہرۂ دل بر میں تھی

سوچتا ہوں کہ اس سے بچ نکلوں

بچ نکلنے کے بعد کیا ہوگا

دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں

مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو

ملنا اور بچھڑ جانا کسی رستے پر

اک یہی قصہ آدمیوں کے ساتھ رہا

یہ جو روشنی ہے کلام میں کہ برس رہی ہے تمام میں

مجھے صبر نے یہ ثمر دیا مجھے ضبط نے یہ ہنر دیا

ثروتؔ تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو

جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہیں ہوگا

بجھی روح کی پیاس لیکن سخی

مرے ساتھ میرا بدن بھی تو ہے

خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجے

کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے

میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے

بلا کا رنگ تھا رنگینیٔ قبا سے ادھر

شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک

کتنی محرابیں پڑتی ہیں کتنے در آتے ہیں

ہر صبح نکلنا کسی دیوار طرب سے

ہر شام کسی منزل غم ناک پہ ہونا

آنکھوں میں دمک اٹھی ہے تصویر در و بام

یہ کون گیا میرے برابر سے نکل کر

حسن بہار مجھ کو مکمل نہیں لگا

میں نے تراش لی ہے خزاں اپنے ہاتھ سے

اک داستان اب بھی سناتے ہیں فرش و بام

وہ کون تھی جو رقص کے عالم میں مر گئی

اپنے اپنے گھر جا کر سکھ کی نیند سو جائیں

تو نہیں خسارے میں میں نہیں خسارے میں

کیوں گرفتہ دل نظر آتی ہے اے شام فراق

ہم جو تیرے ناز اٹھانے کے لیے موجود ہیں

میں کتاب خاک کھولوں تو کھلے

کیا نہیں موجود کیا موجود ہے

مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر

کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں

سوچتا ہوں دیار بے پروا

کیوں مرا احترام کرنے لگا

وہ اک سورج صبح تلک مرے پہلو میں

اپنی سب ناراضگیوں کے ساتھ رہا

نئی نئی سی آگ ہے یا پھر کون ہے وہ

پیلے پھولوں گہرے سرخ لبادوں والی

اپنے لیے تجویز کی شمشیر برہنہ

اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا

دشت چھوڑا تو کیا ملا ثروتؔ

گھر بدلنے کے بعد کیا ہوگا

لے آئے گا اک روز گل و برگ بھی ثروتؔ

باراں کا مسلسل خس و خاشاک پہ ہونا

کبھی تیغ تیز سپرد کی کبھی تحفۂ گل تر دیا

کسی شاہ زادی کے عشق نے مرا دل ستاروں سے بھر دیا

میں سو رہا تھا اور مری خواب گاہ میں

اک اژدہا چراغ کی لو کو نگل گیا

میں اپنی پیاس کے ہم راہ مشکیزہ اٹھائے

کہ ان سیراب لوگوں میں کوئی پیاسا ملے گا

تیری آشفتہ مزاجی اے دل

کیا خبر کون نگر لے جائے

عمر کا کوہ گراں اور شب و روز مرے

یہ وہ پتھر ہے جو کٹتا نہیں آسانی سے

سیاہی پھیرتی جاتی ہیں راتیں بحر و بر پہ

انہی تاریکیوں سے مجھ کو بھی حصہ ملے گا

قندیل مہ و مہر کا افلاک پہ ہونا

کچھ اس سے زیادہ ہے مرا خاک پہ ہونا

سایۂ ابر سے پوچھو ثروتؔ

اپنے ہم راہ اگر لے جائے

بہت مصر تھے خدایان ثابت و سیار

سو میں نے آئنہ و آسماں پسند کیے

یہ انتہائے مسرت کا شہر ہے ثروتؔ

یہاں تو ہر در و دیوار اک سمندر ہے

آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے

گزر گئی ہے عجب سواری یادوں والی

خوش لباسی ہے بڑی چیز مگر کیا کیجئے

کام اس پل ہے ترے جسم کی عریانی سے

صبح کے شہر میں اک شور ہے شادابی کا

گل دیوار، ذرا بوسہ نما ہو جانا

یہ کون اترا پئے گشت اپنی مسند سے

اور انتظام مکان و سرا بدلنے لگا

اسے بھی یاد رکھنا بادبانی ساعتوں میں

وہ سیارہ کنار صبح فردا آ ملے گا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے