Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zafar Gorakhpuri's Photo'

ظفر گورکھپوری

1935 - 2017 | ممبئی, انڈیا

ممتاز ترقی پسند شاعر

ممتاز ترقی پسند شاعر

ظفر گورکھپوری کے اشعار

5.5K
Favorite

باعتبار

کیسی شب ہے ایک اک کروٹ پہ کٹ جاتا ہے جسم

میرے بستر میں یہ تلواریں کہاں سے آ گئیں

شاید اب تک مجھ میں کوئی گھونسلہ آباد ہے

گھر میں یہ چڑیوں کی چہکاریں کہاں سے آ گئیں

نہیں معلوم آخر کس نے کس کو تھام رکھا ہے

وہ مجھ میں گم ہے اور میرے در و دیوار گم اس میں

ذہنوں کی کہیں جنگ کہیں ذات کا ٹکراؤ

ان سب کا سبب ایک مفادات کا ٹکراؤ

فلک نے بھی نہ ٹھکانا کہیں دیا ہم کو

مکاں کی نیو زمیں سے ہٹا کے رکھی تھی

دیکھیں قریب سے بھی تو اچھا دکھائی دے

اک آدمی تو شہر میں ایسا دکھائی دے

ابھی زندہ ہیں ہم پر ختم کر لے امتحاں سارے

ہمارے بعد کوئی امتحاں کوئی نہیں دے گا

میں ظفرؔ تا زندگی بکتا رہا پردیس میں

اپنی گھر والی کو اک کنگن دلانے کے لیے

شجر کے قتل میں اس کا بھی ہاتھ ہے شاید

بتا رہا ہے یہ باد صبا کا چپ رہنا

تنہائی کو گھر سے رخصت کر تو دو

سوچو کس کے گھر جائے گی تنہائی

آنکھیں یوں ہی بھیگ گئیں کیا دیکھ رہے ہو آنکھوں میں

بیٹھو صاحب کہو سنو کچھ ملے ہو کتنے سال کے بعد

کوئی آنکھوں کے شعلے پونچھنے والا نہیں ہوگا

ظفرؔ صاحب یہ گیلی آستیں ہی کام آئے گی

آسماں ایسا بھی کیا خطرہ تھا دل کی آگ سے

اتنی بارش ایک شعلے کو بجھانے کے لیے

اپنے اطوار میں کتنا بڑا شاطر ہوگا

زندگی تجھ سے کبھی جس نے شکایت نہیں کی

چھت ٹپکتی تھی اگرچہ پھر بھی آ جاتی تھی نیند

میں نئے گھر میں بہت رویا پرانے کے لیے

میری اک چھوٹی سی کوشش تجھ کو پانے کے لیے

بن گئی ہے مسئلہ سارے زمانے کے لیے

سمندر لے گیا ہم سے وہ ساری سیپیاں واپس

جنہیں ہم جمع کر کے اک خزانہ کرنے والے تھے

کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو

میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر

خط لکھ کے کبھی اور کبھی خط کو جلا کر

تنہائی کو رنگین بنا کیوں نہیں لیتے

اسے ٹھہرا سکو اتنی بھی تو وسعت نہیں گھر میں

یہ سب کچھ جان کر آوارگی سے چاہتے کیا ہو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے