Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Afzal Khan's Photo'

جدید لب و لہجے کے پاکستانی شاعر

جدید لب و لہجے کے پاکستانی شاعر

افضل خان کے اشعار

14.5K
Favorite

باعتبار

ساتھیو اب مجھے رستے میں اترنا ہوگا

ڈوبتی ناؤ بچانے کا نہیں حل کوئی اور

کسی نے خواب میں آکر مجھے یہ حکم دیا

تم اپنے اشک بھی بھیجا کرو دعاؤں کے ساتھ

تری مسند پہ کوئی اور نہیں آ سکتا

یہ مرا دل ہے کوئی خالی اسامی تو نہیں

تو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں

ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

مجھے رونا نہیں آواز بھی بھاری نہیں کرنی

محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی

ذرا یہ دوسرا مصرع درست فرمائیں

مرے مکان پہ لکھا ہے گھر برائے فروخت

یہ محبت کے محل تعمیر کرنا چھوڑ دے

میں بھی شہزادہ نہیں ہوں تو بھی شہزادی نہیں

اسی لیے ہمیں احساس جرم ہے شاید

ابھی ہماری محبت نئی نئی ہے نا

چھوڑ کر مجھ کو ترے صحن میں جا بیٹھا ہے

پڑ گئی جیسے ترے سایۂ دیوار میں جان

تبھی تو میں محبت کا حوالاتی نہیں ہوتا

یہاں اپنے سوا کوئی ملاقاتی نہیں ہوتا

ڈبو رہا ہے مجھے ڈوبنے کا خوف اب تک

بھنور کے بیچ ہوں دریا کے پار ہوتے ہوئے

ہمارا دل ذرا اکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر

یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی

یہ نکتہ اک قصہ گو نے مجھ کو سمجھایا

ہر کردار کے اندر ایک کہانی ہوتی ہے

بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو

محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا

اک وڈیرہ کچھ مویشی لے کے بیٹھا ہے یہاں

گاؤں کی جتنی بھی آبادی ہے آبادی نہیں

بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی

وگرنہ ہم تو اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں

سزائے موت پہ فریاد سے تو بہتر ہے

گلے لگا کے کہوں دار کو مبارک باد

ہمارے سانس بھی لے کر نہ بچ سکے افضل

یہ خاکدان میں دم توڑتے ہوئے سگریٹ

دیر سے آنے پر وو خفا تھا آخر مان گیا

آج میں اپنے باپ سے ملنے قبرستان گیا

نہیں تھا دھیان کوئی توڑتے ہوئے سگریٹ

میں تجھ کو بھول گیا چھوڑتے ہوئے سگریٹ

اتنی ساری یادوں کے ہوتے بھی جب دل میں

ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے

جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں

شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے

میں خود بھی یار تجھے بھولنے کے حق میں ہوں

مگر جو بیچ میں کمبخت شاعری ہے نا

دالان میں سبزہ ہے نہ تالاب میں پانی

کیوں کوئی پرندہ مری دیوار پہ اترے

پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پر آخر

شجر پہ لکھا ہوا ہے شجر برائے فروخت

تیرے جانے سے زیادہ ہیں نہ کم پہلے تھے

ہم کو لاحق ہیں وہی اب بھی جو غم پہلے تھے

یہ کہہ دیا ہے مرے آنسوؤں نے تنگ آ کر

ہمیں بوقت ضرورت نکالئے صاحب

تو روز جس کے تجسس میں آ رہا ہے یہاں

ہزار بار بتایا ہے وہ نہیں ہوں میں

شکست زندگی ویسے بھی موت ہی ہے نا

تو سچ بتا یہ ملاقات آخری ہے نا

یہ بھی خود کو حوصلہ دینے کا حیلہ ہے کہ میں

انگلیوں سے لکھ رہا ہوں چار سو لا تقنطو

یہ جو کچھ لوگ خیالوں میں رہا کرتے ہیں

ان کا گھر بار بھی ہوتا ہے نہیں بھی ہوتا

تو مجھے تنگ نہ کر اے دل آوارہ مزاج

تجھ کو اس شہر میں لانا ہی نہیں چاہیے تھا

بھاؤ تاؤ میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی

ہاں مگر تجھ سے خریدار کو نا کیسے ہو

اب جو پتھر ہے آدمی تھا کبھی

اس کو کہتے ہیں انتظار میاں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے