Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aitbar Sajid's Photo'

ہجر و وصال کی کیفیتوں کو اظہار دینے والی رومانی شاعری کے لیے مشہور

ہجر و وصال کی کیفیتوں کو اظہار دینے والی رومانی شاعری کے لیے مشہور

اعتبار ساجد کے اشعار

13.3K
Favorite

باعتبار

کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے

کلینڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے

ایک ہی شہر میں رہنا ہے مگر ملنا نہیں

دیکھتے ہیں یہ اذیت بھی گوارہ کر کے

میں تکیے پر ستارے بو رہا ہوں

جنم دن ہے اکیلا رو رہا ہوں

اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو

وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے

گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر

اک نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ

پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے

ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے

عجب نشہ ہے ترے قرب میں کہ جی چاہے

یہ زندگی تری آغوش میں گزر جائے

یہ برسوں کا تعلق توڑ دینا چاہتے ہیں ہم

اب اپنے آپ کو بھی چھوڑ دینا چاہتے ہیں ہم

رہا کر دے قفس کی قید سے گھایل پرندے کو

کسی کے درد کو اس دل میں کتنے سال پالے گا

ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آ گئے

دیکھ تیرا قصر عالی شان خالی کر دیا

ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کر لکھ لیے

ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو

میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو

میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری

دل میں بھی جھانک مری ظاہری حالت پہ نہ جا

پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے

کسے پانے کی خواہش ہے کہ ساجدؔ

میں رفتہ رفتہ خود کو کھو رہا ہوں

مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے

منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں

ان دوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قربتیں

سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے

جس کو ہم نے چاہا تھا وہ کہیں نہیں اس منظر میں

جس نے ہم کو پیار کیا وہ سامنے والی مورت ہے

تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں

کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں

مجھے اپنے روپ کی دھوپ دو کہ چمک سکیں مرے خال و خد

مجھے اپنے رنگ میں رنگ دو مرے سارے رنگ اتار دو

ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں

کہیں روگ بن نہ جائے یہی ساتھ دو گھڑی کا

پہلے غم فرقت کے یہ تیور تو نہیں تھے

رگ رگ میں اترتی ہوئی تنہائی تو اب ہے

تعلق کرچیوں کی شکل میں بکھرا تو ہے پھر بھی

شکستہ آئینوں کو جوڑ دینا چاہتے ہیں ہم

جو مری شبوں کے چراغ تھے جو مری امید کے باغ تھے

وہی لوگ ہیں مری آرزو وہی صورتیں مجھے چاہئیں

بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں

آ مرے دل مرے غم خوار کہیں اور چلیں

جدائیوں کی خلش اس نے بھی نہ ظاہر کی

چھپائے اپنے غم و اضطراب میں نے بھی

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ

لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ

رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا

دیئے منڈیر پہ رکھ آتے ہیں ہم ہر شام نہ جانے کیوں

شاید اس کے لوٹ آنے کا کچھ امکان ابھی باقی ہے

اتنا پسپا نہ ہو دیوار سے لگ جائے گا

اتنے سمجھوتے نہ کر صورت حالات کے ساتھ

مکینوں کے تعلق ہی سے یاد آتی ہے ہر بستی

وگرنہ صرف بام و در سے الفت کون رکھتا ہے

غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی

ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں

برسوں بعد ہمیں دیکھا تو پہروں اس نے بات نہ کی

کچھ تو گرد سفر سے بھانپا کچھ آنکھوں سے جان لیا

یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا

اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں

Recitation

بولیے