Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Akbar Ali Khan Arshi Zadah's Photo'

اکبر علی خان عرشی زادہ

1939 - 1997 | رام پور, انڈیا

شاعر اور محقق، غالب کے دیوان اور ان کے خطوط کے حوالے سے کئی تحقیقی کام کیے

شاعر اور محقق، غالب کے دیوان اور ان کے خطوط کے حوالے سے کئی تحقیقی کام کیے

اکبر علی خان عرشی زادہ کے اشعار

311
Favorite

باعتبار

میرے تصور نے بخشی ہے تنہائی کو بھی اک محفل

تو محفل محفل تنہا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

لوٹا جو اس نے مجھ کو تو آباد بھی کیا

اک شخص رہزنی میں بھی رہبر لگا مجھے

میں تجھ کو بھول نہ پاؤں یہی سزا ہے مری

میں اپنے آپ سے لیتا ہوں انتقام اپنا

وہی مایوسی کا عالم وہی نومیدی کا رنگ

زندگی بھی کسی مفلس کی دعا ہو جیسے

عجیب اس سے تعلق ہے کیا کہا جائے

کچھ ایسی صلح نہیں ہے کچھ ایسی جنگ نہیں

کبھی خوشبو کبھی سایہ کبھی پیکر بن کر

سبھی ہجروں میں وصالوں میں مرے پاس رہو

حرف دشنام سے یوں اس نے نوازا ہم کو

یہ ملامت ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

وہ ایک لمحہ مجھے کیوں ستا رہا ہے کہ جو

نہیں کے بعد مگر اس کی ہاں سے پہلے تھا

یہ پڑی ہیں صدیوں سے کس لیے ترے میرے بیچ جدائیاں

کبھی اپنے گھر تو مجھے بلا کبھی راستے مرے گھر کے دیکھ

یاد بن کے پہلو میں موسموں کے بستر پر

کروٹیں بدلتی ہیں مہربانیاں ساری

وہی گماں ہے جو اس مہرباں سے پہلے تھا

وہیں سے پھر یہ سفر ہے جہاں سے پہلے تھا

دھنک کی طرح نکھرتا ہے شب کو خوابوں میں

وہی جو دن کو مری چشم تر میں رہتا ہے

یہ اک سوال ہے شکوہ نہیں گلہ بھی نہیں

مرے خدا ترا لطف و عطا ہے کس کے لیے

غم ایام پہ یوں خوش ہیں ترے دیوانے

غم ایام بھی اک تیری ادا ہو جیسے

اسی تلاش میں پہونچا ہوں عشق تک تیرے

کہ اس حوالے سے پا جاؤں میں دوام اپنا

ضبط جنوں سے اندازوں پر در تو بند نہیں ہوتے

تو مجھ سے بڑھ کر رسوا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

لاؤ اک لمحے کو اپنے آپ میں ڈوب کے دیکھ آؤں

خود مجھ میں ہی میرا خدا ہو یہ بھی تو ہو سکتا ہے

جب آ رہی ہیں بہاریں لیے پیام جنوں

یہ پیرہن کو مرے حاجت رفو کیا تھی

تمہیں نہیں ہو اگر آج گوش بر آواز

یہ میری فکر یہ میری نوا ہے کس کے لیے

سر خار سے سر سنگ سے جو ہے میرا جسم لہو لہو

کبھی تو بھی تو مرے سنگ میل کبھی رنگ میرے سفر کے دیکھ

جو بار دوش رہا سر وہ کب تھا شوریدہ

بہا نہ جس سے لہو وہ رگ گلو کیا تھی

صراحئ مئے ناب و سفینہ ہائے غزل

یہ حرف‌ حسن مقدر لکھا ہے کس کے لیے

وہ سن رہا ہے مری بے زبانیوں کی زباں

جو حرف و صوت و صدا و زباں سے پہلے تھا

Recitation

بولیے