Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anand Narayan Mulla's Photo'

آنند نرائن ملا

1901 - 1997 | الہٰ آباد, انڈیا

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے۔ لوک سبھا کے رکن بھی رہے

الہ آباد ہائی کورٹ کے جج تھے۔ لوک سبھا کے رکن بھی رہے

آنند نرائن ملا کے اشعار

7.6K
Favorite

باعتبار

اس اک نظر کے بزم میں قصے بنے ہزار

اتنا سمجھ سکا جسے جتنا شعور تھا

آئینۂ رنگین جگر کچھ بھی نہیں کیا

کیا حسن ہی سب کچھ ہے نظر کچھ بھی نہیں کیا

ایک اک لمحہ میں جب صدیوں کی صدیاں کٹ گئیں

ایسی کچھ راتیں بھی گزری ہیں مری تیرے بغیر

عشق میں وہ بھی ایک وقت ہے جب

بے گناہی گناہ ہے پیارے

ہم نے بھی کی تھیں کوششیں ہم نہ تمہیں بھلا سکے

کوئی کمی ہمیں میں تھی یاد تمہیں نہ آ سکے

خون جگر کے قطرے اور اشک بن کے ٹپکیں

کس کام کے لیے تھے کس کام آ رہے ہیں

دیار عشق ہے یہ ظرف دل کی جانچ ہوتی ہے

یہاں پوشاک سے اندازہ انساں کا نہیں ہوتا

عقل کے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھلاتے ہوئے

ہم نے کاٹی زندگی دیوانہ کہلاتے ہوئے

سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے

تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے

تری جفا کو جفا میں تو کہہ نہیں سکتا

ستم ستم ہی نہیں ہے جو دل کو راس آئے

تم جس کو سمجھتے ہو کہ ہے حسن تمہارا

مجھ کو تو وہ اپنی ہی محبت نظر آئی

رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں

اشک پینے کے لیے ہیں کہ بہانے کے لیے

تو نے پھیری لاکھ نرمی سے نظر

دل کے آئینہ میں بال آ ہی گیا

مجھے کر کے چپ کوئی کہتا ہے ہنس کر

انہیں بات کرنے کی عادت نہیں ہے

اب بن کے فلک زاد دکھاتے ہیں ہمیں آنکھ

ذرے وہی کل جن کو اچھالا تھا ہمیں نے

شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی

آگ جب تن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے

ہر اک صورت پہ دھوکا کھا رہی ہیں تیری صورت کا

ابھی آتا نہیں نظروں کو تاحد نظر جانا

غم حیات شریک غم محبت ہے

ملا دئے ہیں کچھ آنسو مری شراب کے ساتھ

ملاؔ بنا دیا ہے اسے بھی محاذ جنگ

اک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

اشک غم الفت میں اک راز نہانی ہے

پی جاؤ تو امرت ہے بہہ جائے تو پانی ہے

وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت

ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے

کہنے کو لفظ دو ہیں امید اور حسرت

ان میں نہاں مگر اک دنیا کی داستاں ہے

محبت فرق کھو دیتی ہے اعلیٰ اور ادنیٰ کا

رخ خورشید میں ذرہ کی ہم تنویر دیکھیں گے

حد تکمیل کو پہنچی تری رعنائی حسن

جو کسر تھی وہ مٹا دی تری انگڑائی نے

عشق کرتا ہے تو پھر عشق کی توہین نہ کر

یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ

حسن کے جلوے نہیں محتاج چشم آرزو

شمع جلتی ہے اجازت لے کے پروانے سے کیا

میں فقط انسان ہوں ہندو مسلماں کچھ نہیں

میرے دل کے درد میں تفریق ایماں کچھ نہیں

جس کے خیال میں ہوں گم اس کو بھی کچھ خیال ہے

میرے لیے یہی سوال سب سے بڑا سوال ہے

خدا جانے دعا تھی یا شکایت لب پہ بسمل کے

نظر سوئے فلک تھی ہاتھ میں دامان قاتل تھا

دل بے تاب کا انداز بیاں ہے ورنہ

شکر میں کون سی شے ہے جو شکایت میں نہیں

مختصر اپنی حدیث زیست یہ ہے عشق میں

پہلے تھوڑا سا ہنسے پھر عمر بھر رویا کیے

اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ

یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا

نظر جس کی طرف کر کے نگاہیں پھیر لیتے ہو

قیامت تک پھر اس دل کی پریشانی نہیں جاتی

گلے لگا کے کیا نذر شعلۂ آتش

قفس سے چھوٹ کے پھر آشیاں ملے نہ ملے

فرق جو کچھ ہے وہ مطرب میں ہے اور ساز میں ہے

ورنہ نغمہ وہی ہر پردۂ آواز میں ہے

نظام مے کدہ ساقی بدلنے کی ضرورت ہے

ہزاروں ہیں صفیں جن میں نہ مے آئی نہ جام آیا

نہ جانے کتنی شمعیں گل ہوئیں کتنے بجھے تارے

تب اک خورشید اتراتا ہوا بالائے بام آیا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے