انجم سلیمی کے اشعار
ماں کی دعا نہ باپ کی شفقت کا سایا ہے
آج اپنے ساتھ اپنا جنم دن منایا ہے
ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی
تم اکیلے میں ملے ہی نہیں ورنہ تم کو
اور ہی طرح کے اک شخص سے ملواتا میں
روشنی بھی نہیں ہوا بھی نہیں
ماں کا نعم البدل خدا بھی نہیں
مجھے پتہ ہے کہ برباد ہو چکا ہوں میں
تو میرا سوگ منا مجھ کو سوگوار نہ کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چل تو سکتا تھا میں بھی پانی پر
میں نے دریا کا احترام کیا
اتنا بے تاب نہ ہو مجھ سے بچھڑنے کے لیے
تجھ کو آنکھوں سے نہیں دل سے جدا کرنا ہے
کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے
کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا
-
موضوع : ماں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک بے نام اداسی سے بھرا بیٹھا ہوں
آج دل کھول کے رونے کی ضرورت ہے مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے
میں چیختا رہا کچھ اور بھی ہے میرا علاج
مگر یہ لوگ تمہارا ہی نام لیتے رہے
کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو
عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں
ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا
تو مرے صبر کا اندازہ لگا سکتا ہے
تیری صحبت میں ترا ہجر گزارا ہے میاں
اتنا ترسایا گیا مجھ کو محبت سے کہ اب
اک محبت پہ قناعت نہیں کر سکتا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ اک دن جانے کس کو یاد کر کے
مرے سینے سے لگ کے رو پڑا تھا
-
موضوع : یاد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک
میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں
ہاں زمانے کی نہیں اپنی تو سن سکتا تھا
کاش خود کو ہی کبھی بیٹھ کے سمجھاتا میں
سبھی دروازے کھلے ہیں مری تنہائی کے
ساری دنیا کو میسر ہے رفاقت میری
میں جس چراغ سے بیٹھا تھا لو لگائے ہوئے
پتہ چلا وہ اندھیرے میں رکھ رہا تھا مجھے
میری مٹی سے بہت خوش ہیں مرے کوزہ گر
ویسا بن جاتا ہوں میں جیسا بناتے ہیں مجھے
میں ایک ایک تمنا سے پوچھ بیٹھا ہوں
مجھے یقیں نہیں آتا کہ میرا سب ہے تو
پتھر میں کون جونک لگائے گا میرے دوست
دل ہے تو مبتلا بھی کہیں ہونا چاہئے
ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے
تیرے اندر کی اداسی کے مشابہ ہوں میں
خال و خد سے نہیں آواز سے پہچان مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایک تعبیر کی صورت نظر آئی ہے ادھر
سو اٹھا لایا ہوں سب خواب پرانے والے
تجھ سے یہ کیسا تعلق ہے جسے جب چاہوں
ختم کر دیتا ہوں آغاز بھی کر لیتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں خود سے مل کے کبھی صاف صاف کہہ دوں گا
مجھے پسند نہیں ہے مداخلت اپنی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہو ہوا سے کہ اتنی چراغ پا نہ پھرے
میں خود ہی اپنے دیے کو بجھانے والا ہوں
جب خدا بھی نہیں تھا ساتھ مرے
مجھ پہ بیتی ہے ایسی تنہائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنی تصدیق مجھے تیری گواہی سے ہوئی
تو کہاں سے مرے ہونے کی خبر لایا ہے
پرانا زہر نئے نام سے ملا ہے مجھے
وہ آستین نہیں کینچلی بدل رہا تھا
کھلی ہوئی ہے جو کوئی آسان راہ مجھ پر
میں اس سے ہٹ کے اک اور رستہ بنا رہا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہنے سننے کے لیے اور بچا ہی کیا ہے
سو مرے دوست اجازت مجھے رخصت کیا جائے
برہم ہیں مجھ پہ اس لیے دونوں طرف کے لوگ
دیوار اٹھ گئی تھی تو در کیوں بنایا ہے
بجھنے دے سب دیئے مجھے تنہائی چاہئے
کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی طرح سے نظر مطمئن نہیں ہوتی
ہر ایک شے کو دوبارہ بدل کے دیکھتا ہوں
درد سے بھرتا رہا ذات کے خالی پن کو
تھوڑا تھوڑا یوں ہی بھرپور کیا میں نے مجھے
میں آج خود سے ملاقات کرنے والا ہوں
جہاں میں کوئی بھی میرے سوا نہ رہ جائے
کس زمانے میں مجھ کو بھیج دیا
مجھ سے تو رائے بھی نہ چاہی مری
دوستو میرے لیے کوئی بھی افسردہ نہ ہو
خوش دلی سے دم رخصت مجھے رخصت کیا جائے