Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Anwar Sadeed's Photo'

انور سدید

1928 - 2016 | سرگودھا, پاکستان

ممتاز پاکستانی نقاد، محقق، شاعر اور کالم نویس؛ ’اردو ادب کی تحریکیں‘ اور’اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش‘ کے علاوہ درجنوں اہم کتابوں کے مصنف؛ کئی اہم اخبارات اور ادبی رسالوں کو ادارتی تعاون دیا

ممتاز پاکستانی نقاد، محقق، شاعر اور کالم نویس؛ ’اردو ادب کی تحریکیں‘ اور’اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش‘ کے علاوہ درجنوں اہم کتابوں کے مصنف؛ کئی اہم اخبارات اور ادبی رسالوں کو ادارتی تعاون دیا

انور سدید کے اشعار

1.5K
Favorite

باعتبار

خاک ہوں لیکن سراپا نور ہے میرا وجود

اس زمیں پر چاند سورج کا نمائندہ ہوں میں

اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے

تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے

کل شام پرندوں کو اڑتے ہوئے یوں دیکھا

بے آب سمندر میں جیسے ہو رواں پانی

جو پھول جھڑ گئے تھے جو آنسو بکھر گئے

خاک چمن سے ان کا پتا پوچھتا رہا

ہم نے ہر سمت بچھا رکھی ہیں آنکھیں اپنی

جانے کس سمت سے آ جائے سواری تیری

آشیانوں میں نہ جب لوٹے پرندے تو سدیدؔ

دور تک تکتی رہیں شاخوں میں آنکھیں صبح تک

پنکھ ہلا کر شام گئی ہے اس آنگن سے

اب اترے گی رات انوکھی یادوں والی

چشمے کی طرح پھوٹا اور آپ ہی بہہ نکلا

رکھتا بھلا میں کب تک آنکھوں میں نہاں پانی

جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ

اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی

تو جسم ہے تو مجھ سے لپٹ کر کلام کر

خوشبو ہے گر تو دل میں سمٹ کر کلام کر

شکوہ کیا زمانے کا تو اس نے یہ کہا

جس حال میں ہو زندہ رہو اور خوش رہو

یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر

دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی

کوئی بھی پیچیدگی حائل نہیں انور سدیدؔ

زندگی ہے سامنے منظر بہ منظر اور میں

سیل زماں میں ڈوب گئے مشہور زمانہ لوگ

وقت کے منصف نے کب رکھا قائم ان کا نام

زمیں کا رزق ہوں لیکن نظر فلک پر ہے

کہو فلک سے مرے راستے سے ہٹ جائے

دکھ کے طاق پہ شام ڈھلے

کس نے دیا جلایا تھا

گھپ اندھیرے میں بھی اس کا جسم تھا چاندی کا شہر

چاند جب نکلا تو وہ سونا نظر آیا مجھے

چلا میں جانب منزل تو یہ ہوا معلوم

یقیں گمان میں گم ہے گماں ہے پوشیدہ

دم وصال تری آنچ اس طرح آئی

کہ جیسے آگ سلگنے لگے گلابوں میں

کھلی زبان تو ظرف ان کا ہو گیا ظاہر

ہزار بھید چھپا رکھے تھے خموشی میں

Recitation

بولیے