اثر لکھنوی کے اشعار
آہ کس سے کہیں کہ ہم کیا تھے
سب یہی دیکھتے ہیں کیا ہیں ہم
آپ کا خط نہیں ملا مجھ کو
دولت دو جہاں ملی مجھ کو
زندگی اور زندگی کی یادگار
پردہ اور پردے پہ کچھ پرچھائیاں
ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے
اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی
عشق سے لوگ منع کرتے ہیں
جیسے کچھ اختیار ہے اپنا
اک بات بھلا پوچھیں کس طرح مناؤ گے
جیسے کوئی روٹھا ہے اور تم کو منانا ہے
یہ سوچتے ہی رہے اور بہار ختم ہوئی
کہاں چمن میں نشیمن بنے کہاں نہ بنے
قاصد پیام ان کا نہ کچھ دیر ابھی سنا
رہنے دے محو لذت ذوق خبر مجھے
کرم پر بھی ہوتا ہے دھوکا ستم کا
یہاں تک الم آشنا ہو گئے ہم
کچھ دیر فکر عالم بالا کی چھوڑ دو
اس انجمن کا راز اسی انجمن میں ہے
تمہارا حسن آرائش تمہاری سادگی زیور
تمہیں کوئی ضرورت ہی نہیں بننے سنورنے کی
جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے وہ پہلو
اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے
جو سزا دیجے ہے بجا مجھ کو
تجھ سے کرنی نہ تھی وفا مجھ کو
بہانہ مل نہ جائے بجلیوں کو ٹوٹ پڑنے کا
کلیجہ کانپتا ہے آشیاں کو آشیاں کہتے
بھولنے والے کو شاید یاد وعدہ آ گیا
مجھ کو دیکھا مسکرایا خود بہ خود شرما گیا
پھرتے ہوئے کسی کی نظر دیکھتے رہے
دل خون ہو رہا تھا مگر دیکھتے رہے
کیا کیا دعائیں مانگتے ہیں سب مگر اثرؔ
اپنی یہی دعا ہے کوئی مدعا نہ ہو
آج کچھ مہربان ہے صیاد
کیا نشیمن بھی ہو گیا برباد
پلکیں گھنیری گوپیوں کی ٹوہ لیے ہوئے
رادھا کے جھانکنے کا جھروکہ غضب غضب