Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بے کسی پر اشعار

زندگی کسی ایک رخ پر

نہیں چلتی ،اس میں اتار چڑھاؤ کی کیفیتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ کبھی وقت انسان کے موافق ہوتا ہے اور ساری چیزیں اس کی مرضی کی ہوتی رہتی ہیں لیکن زندگی میں وہ لمحے بھی آتے ہیں جب سب کچھ اس کے اختیار سے باہر ہوتا ہے اور ہر طرف بے کسی کی فضا طاری ہوتی ہے۔ یہ تو زندگی کا عام سا عمل ہے لیکن شاعری میں بے کسی اپنی بیشتر صورتوں میں عاشق کی بے کسی ہے ۔ عشق میں انسان کس حد تک بے کس اور مجبور ہوتا ہے اور اس کی کیا کیا صورتیں ہوتی ہیں اس کا ایک چھوٹا سا اندازہ ہمارے اس انتخاب سے لگا یا جاسکتا ہے۔

کیوں مزاحم ہے میرے آنے سے

کوئی ترا گھر نہیں یہ رستا ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

مجھ کو مری شکست کی دوہری سزا ملی

تجھ سے بچھڑ کے زندگی دنیا سے جا ملی

ساقی فاروقی

ادھر سے آج وہ گزرے تو منہ پھیرے ہوئے گزرے

اب ان سے بھی ہماری بے کسی دیکھی نہیں جاتی

اثر لکھنوی

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

باقی صدیقی

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا

ہماری بیکسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

عبث دل بے کسی پہ اپنی اپنی ہر وقت روتا ہے

نہ کر غم اے دوانے عشق میں ایسا ہی ہوتا ہے

خاں آرزو سراج الدین علی

یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ

ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

تشریح

یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔

شفق سوپوری

امید فاضلی

میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا

میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے

بشیر بدر

کر کے دفن اپنے پرائے چل دیے

بیکسی کا قبر پر ماتم رہا

احسن مارہروی

آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ

کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد

مرزا غالب

عاشق کی بے کسی کا تو عالم نہ پوچھیے

مجنوں پہ کیا گزر گئی صحرا گواہ ہے

حفیظ جونپوری

اری بے کسی تیرے قربان جاؤں

برے وقت میں ایک تو رہ گئی ہے

شرف الدین الہام

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی

جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

بہادر شاہ ظفر

سب نے غربت میں مجھ کو چھوڑ دیا

اک مری بے کسی نہیں جاتی

بیدم شاہ وارثی

آنکھیں بھی ہائے نزع میں اپنی بدل گئیں

سچ ہے کہ بے کسی میں کوئی آشنا نہیں

خواجہ میر درد

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے