Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aziz Hamid Madni's Photo'

عزیز حامد مدنی

1922 - 1991 | کراچی, پاکستان

نئی اردو شاعری کی ممتاز شخصیت، ان کی کئی غزلیں گائی گئی ہیں

نئی اردو شاعری کی ممتاز شخصیت، ان کی کئی غزلیں گائی گئی ہیں

عزیز حامد مدنی کے اشعار

1K
Favorite

باعتبار

طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش

ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں

جو بات دل میں تھی اس سے نہیں کہی ہم نے

وفا کے نام سے وہ بھی فریب کھا جاتا

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے

گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

میری وفا ہے اس کی اداسی کا ایک باب

مدت ہوئی ہے جس سے مجھے اب ملے ہوئے

مانا کہ زندگی میں ہے ضد کا بھی اک مقام

تم آدمی ہو بات تو سن لو خدا نہیں

گہرے سرخ گلاب کا اندھا بلبل سانپ کو کیا دیکھے گا

پاس ہی اگتی ناگ پھنی تھی سارے پھول وہیں ملتے ہیں

خوں ہوا دل کہ پشیمان صداقت ہے وفا

خوش ہوا جی کہ چلو آج تمہارے ہوئے لوگ

خدا کا شکر ہے تو نے بھی مان لی مری بات

رفو پرانے دکھوں پر نہیں کیا جاتا

غم حیات و غم دوست کی کشاکش میں

ہم ایسے لوگ تو رنج و ملال سے بھی گئے

زہر کا جام ہی دے زہر بھی ہے آب حیات

خشک سالی کی تو ہو جائے تلافی ساقی

کچھ اب کے ہم بھی کہیں اس کی داستان وصال

مگر وہ زلف پریشاں کھلے تو بات چلے

کہہ سکتے تو احوال جہاں تم سے ہی کہتے

تم سے تو کسی بات کا پردا بھی نہیں تھا

خلل پذیر ہوا ربط مہر و ماہ میں وقت

بتا یہ تجھ سے جدائی کا وقت ہے کہ نہیں

بیٹھو جی کا بوجھ اتاریں دونوں وقت یہیں ملتے ہیں

دور دور سے آنے والے رستے کہیں کہیں ملتے ہیں

شہر جن کے نام سے زندہ تھا وہ سب اٹھ گئے

اک اشارے سے طلب کرتا ہے ویرانہ مجھے

ابھی تو کچھ لوگ زندگی میں ہزار سایوں کا اک شجر ہیں

انہیں کے سایوں میں قافلے کچھ ٹھہر گئے بے قیام کہنا

الگ سیاست درباں سے دل میں ہے اک بات

یہ وقت میری رسائی کا وقت ہے کہ نہیں

صبح سے چلتے چلتے آخر شام ہوئی آوارۂ دل

اب میں کس منزل میں پہنچا اب گھر کتنی دور رہا

کاذب صحافتوں کی بجھی راکھ کے تلے

جھلسا ہوا ملے گا ورق در ورق ادب

دلوں کی عقدہ کشائی کا وقت ہے کہ نہیں

یہ آدمی کی خدائی کا وقت ہے کہ نہیں

دو گز زمیں فریب وطن کے لیے ملی

ویسے تو آسماں بھی بہت ہیں زمیں بہت

مرا چاک گریباں چاک دل سے ملنے والا ہے

مگر یہ حادثے بھی بیش و کم ہوتے ہی رہتے ہیں

کھلا یہ دل پہ کہ تعمیر بام و در ہے فریب

بگولے قالب دیوار و در میں ہوتے ہیں

بہار چاک گریباں میں ٹھہر جاتی ہے

جنوں کی موج کوئی آستیں میں ہوتی ہے

حسن کی شرط وفا جو ٹھہری تیشہ و سنگ گراں کی بات

ہم ہوں یا فرہاد ہو آخر عاشق تو مزدور رہا

جب آئی ساعت بے تاب تیری بے لباسی کی

تو آئینے میں جتنے زاویے تھے رہ گئے جل کر

ایسی کوئی خبر تو نہیں ساکنان شہر

دریا محبتوں کے جو بہتے تھے تھم گئے

وقت ہی وہ خط فاصل ہے کہ اے ہم نفسو

دور ہے موج بلا اور کنارے ہوئے لوگ

سلگ رہا ہے افق بجھ رہی ہے آتش مہر

رموز ربط گریزاں کھلے تو بات چلے

مہک میں زہر کی اک لہر بھی خوابیدہ رہتی ہے

ضدیں آپس میں ٹکراتی ہیں فرق مار و صندل کر

نرمی ہوا کی موج طرب خیز ابھی سے ہے

اے ہم صفیر آتش گل تیز ابھی سے ہے

مبہم سے ایک خواب کی تعبیر کا ہے شوق

نیندوں میں بادلوں کا سفر تیز ابھی سے ہے

ان کو اے نرم ہوا خواب جنوں سے نہ جگا

رات مے خانے کی آئے ہیں گزارے ہوئے لوگ

وفا کی رات کوئی اتفاق تھی لیکن

پکارتے ہیں مسافر کو سائباں کیا کیا

طلسم شیوۂ یاراں کھلا تو کچھ نہ ہوا

کبھی یہ حبس دل و جاں کھلے تو بات چلے

صدیوں میں جا کے بنتا ہے آخر مزاج دہر

مدنیؔ کوئی تغیر عالم ہے بے سبب

ایک طرف روئے جاناں تھا جلتی آنکھ میں ایک طرف

سیاروں کی راکھ میں ملتی رات تھی اک بے داری کی

Recitation

بولیے