ڈاکٹر جعفر عسکری کے اشعار
نیند آتی ہی نہیں تھی آگہی کے درد سے
موت نے آغوش میں لے کر سلایا ہے مجھے
ملا تری اکڑ سے یہ ہونے لگا گمان
جیسے خدا زمیں پہ نمودار ہو گیا
برسات مفلسوں کی سدا سے رقیب ہے
کچے مکان گرنے کا موسم عجیب ہے
اک ماں کے دم سے زیست میں رونق تھی برقرار
اب وہ نہیں تو رونق بزم جہاں نہیں
مذہب سے اس کے دل میں نہ پیدا ہوا گداز
یہ آدمی تو اور بھی سفاک ہو گیا
چھانی ہے خاک ہم نے بہت کوئے یار کی
جعفرؔ اس عاشقی سے کسی کو اماں نہیں
اب عشق میں چھپی ہوئی لالچ ہے دہر کی
مجنوں بھی اس زمانے کا چالاک ہو گیا
تصادم دیکھ کر افکار نو کا جہل دوراں سے
سخن روشن خیالی کا سنانا سخت مشکل ہے
مٹ جائے گی وطن سے جہالت کی تیرگی
وہ دیکھ انقلاب کا سورج قریب ہے