Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Figar Unnavi's Photo'

فگار اناوی

اناو, انڈیا

فگار اناوی کے اشعار

1.9K
Favorite

باعتبار

مایوس دلوں کو اب چھیڑو بھی تو کیا حاصل

ٹوٹے ہوئے پیمانے فریاد نہیں کرتے

دل ہے مرا رنگینیٔ آغاز پہ مائل

نظروں میں ابھی جام ہے انجام نہیں ہے

فضا کا تنگ ہونا فطرت آزاد سے پوچھو

پر پرواز ہی کیا جو قفس کو آشیاں سمجھے

اک تیرا آسرا ہے فقط اے خیال دوست

سب بجھ گئے چراغ شب انتظار میں

کیا ملا عرض مدعا سے فگارؔ

بات کہنے سے اور بات گئی

ساقی نے نگاہوں سے پلا دی ہے غضب کی

رندان ازل دیکھیے کب ہوش میں آئیں

ان پہ قربان ہر خوشی کر دی

زندگی نذر زندگی کر دی

غم و الم سے جو تعبیر کی خوشی میں نے

بہت قریب سے دیکھی ہے زندگی میں نے

پھولوں کو گلستاں میں کب راس بہار آئی

کانٹوں کو ملا جب سے اعجاز مسیحائی

بقدر ذوق میرے اشک غم کی ترجمانی ہے

کوئی کہتا ہے موتی ہے کوئی کہتا ہے پانی ہے

حسرت دل نامکمل ہے کتاب زندگی

جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ

ایک خواب و خیال ہے دنیا

اعتبار نظر کو کیا کہئے

عجیب کشمکش ہے کیسے حرف مدعا کہوں

وہ پوچھتے ہیں حال دل میں سوچتا ہوں کیا کہوں

دل مرا شاکیٔ جفا نہ ہوا

یہ وفادار بے وفا نہ ہوا

کسی سے شکوۂ محرومئی نیاز نہ کر

یہ دیکھ لے کہ تری آرزو تو خام نہیں

شکست دل کی ہر آواز حشر آثار ہوتی ہے

مگر سوئی ہوئی دنیا کہاں بیدار ہوتی ہے

دل چوٹ سہے اور اف نہ کرے یہ ضبط کی منزل ہے لیکن

ساغر ٹوٹے آواز نہ ہو ایسا تو بہت کم ہوتا ہے

چھپ گیا دن قدم بڑھا راہی

دور منزل ہے مفت رات نہ کر

دیوانے کو مجاز و حقیقت سے کیا غرض

دیر و حرم ملے نہ ملے تیرا در ملے

آداب عاشقی سے تو ہم بے خبر نہ تھے

دیوانے تھے ضرور مگر اس قدر نہ تھے

کس کام کا ایسا دل جس میں رنجش ہے غبار ہے کینہ ہے

ہم کو ہے ضرورت اس دل کی سب جس کو کہیں آئینہ ہے

قدم قدم پہ دونوں جرم عشق میں شریک ہیں

نظر کو بے خطا کہوں کہ دل کو بے خطا کہوں

دل کی بنیاد پہ تعمیر کر ایوان حیات

قصر شاہی تو ذرا دیر میں ڈھ جاتے ہیں

ہیں یہ جذبات مرے درد بھرے دل کے فگار

لفظ بن بن کے جو اشعار تک آ پہنچے ہیں

میری جبین شوق نے سجدے جہاں کئے

وہ آستاں بنا جو کبھی آستاں نہ تھا

ترے غم کے سامنے کچھ غم دو جہاں نہیں ہے

ہے جہاں ترا تصور وہاں این و آں نہیں ہے

یقین وعدۂ فردا ہمیں باور نہیں آتا

زباں سے لاکھ کہئے آپ کے تیور نہیں کہتے

سر محفل ہمارے دل کو لوٹا چشم ساقی نے

ادھر تقدیر گردش میں ادھر گردش میں جام آیا

قدم اپنے حریم ناز میں اس شوق سے رکھنا

کہ جو دیکھے مرے دل کو تمہارا آستاں سمجھے

محفل کون و مکاں تیری ہی بزم ناز ہے

ہم کہاں جائیں گے اس محفل سے اٹھ جانے کے بعد

کعبہ بھی گھر اپنا ہے صنم خانہ بھی اپنا

ہر حسن کا جلوہ مرا ایمان نظر ہے

کعبے میں ہو یا بت خانے میں ہونے کو تو سر خم ہوتا ہے

ہوتا ہے جہاں تو جلوہ نما کچھ اور ہی عالم ہوتا ہے

پرتو حسن سے ذرے بھی بنے آئینے

کتنے جلوے کئے ارزاں تری رعنائی نے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے