حبیب موسوی کے اشعار
دل میں بھری ہے خاک میں ملنے کی آرزو
خاکستری ہوا ہے ہماری قبا کا رنگ
مے کدہ ہے شیخ صاحب یہ کوئی مسجد نہیں
آپ شاید آئے ہیں رندوں کے بہکائے ہوئے
دل لیا ہے تو خدا کے لئے کہہ دو صاحب
مسکراتے ہو تمہیں پر مرا شک جاتا ہے
-
موضوع : دل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
گلوں کا دور ہے بلبل مزے بہار میں لوٹ
خزاں مچائے گی آتے ہی اس دیار میں لوٹ
میکدے کو جا کے دیکھ آؤں یہ حسرت دل میں ہے
زاہد اس مٹی کی الفت میری آب و گل میں ہے
قدموں پہ ڈر کے رکھ دیا سر تاکہ اٹھ نہ جائیں
ناراض دل لگی میں جو وہ اک ذرا ہوئے
جو لے لیتے ہو یوں ہر ایک کا دل باتوں باتوں میں
بتاؤ سچ یہ چالاکی تمہیں کس نے سکھائی تھی
جا سکے نہ مسجد تک جمع تھے بہت زاہد
میکدے میں آ بیٹھے جب نہ راستا پایا
لب جاں بخش تک جا کر رہے محروم بوسہ سے
ہم اس پانی کے پیاسے تھے جو تڑپاتا ہے ساحل پر
بہت دنوں میں وہ آئے ہیں وصل کی شب ہے
موذن آج نہ یا رب اٹھے اذاں کے لئے
زباں پر ترا نام جب آ گیا
تو گرتے کو دیکھا سنبھلتے ہوئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رندوں کو وعظ پند نہ کر فصل گل میں شیخ
ایسا نہ ہو شراب اڑے خانقاہ میں
دشت و صحرا میں حسیں پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے
آج کل خانۂ امید ہے ویراں کس کا
چاندنی چھپتی ہے تکیوں کے تلے آنکھوں میں خواب
سونے میں ان کا دوپٹہ جو سرک جاتا ہے
کرو باتیں ہٹاؤ آئنہ بس بن چکے گیسو
انہیں جھگڑوں ہی میں اس دن بھی کتنی رات آئی تھی
بتان سرو قامت کی محبت میں نہ پھل پایا
ریاضت جن پہ کی برسوں وہ نخل بے ثمر نکلے
شمع کا شانۂ اقبال ہے توفیق کرم
غنچہ گل ہوتے ہی خود صاحب زر ہوتا ہے
یہ ثابت ہے کہ مطلق کا تعین ہو نہیں سکتا
وہ سالک ہی نہیں جو چل کے تا دیر و حرم ٹھہرے
-
موضوع : دیر/حرم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
فصل گل آئی اٹھا ابر چلی سرد ہوا
سوئے مے خانہ اکڑتے ہوئے مے خوار چلے
خدا کرے کہیں مے خانہ کی طرف نہ مڑے
وہ محتسب کی سواری فریب راہ رکی
غربت بس اب طریق محبت کو قطع کر
مدت ہوئی ہے اہل وطن سے جدا ہوئے
طالب بوسہ ہوں میں قاصد وہ ہیں خواہان جان
یہ ذرا سی بات ہے ملتے ہی طے ہو جائے گی
حضرت واعظ نہ ایسا وقت ہاتھ آئے گا پھر
سب ہیں بے خود تم بھی پی لو کچھ اگر شیشہ میں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پلا ساقی مئے گل رنگ پھر کالی گھٹا آئی
چھپانے کو گنہ مستوں کے کعبہ کی ردا آئی
تھوڑی تھوڑی راہ میں پی لیں گے گر کم ہے تو کیا
دور ہے مے خانہ یہ زاد سفر شیشہ میں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ناصح یہ وعظ و پند ہے بے کار جائے گا
ہم سے بھی بادہ کش ہیں کہیں پارسا ہوئے
کسی ہیں بھبتیاں مسجد میں ریش واعظ پر
کہیں نہ میری طبیعت خدا گواہ رکی
تیرہ بختی کی بلا سے یوں نکلنا چاہیے
جس طرح سلجھا کے زلفوں کو الگ شانہ ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اصل ثابت ہے وہی شرع کا اک پردہ ہے
دانے تسبیح کے سب پھرتے ہیں زناروں پر
کسی صورت سے ہوئی کم نہ ہماری تشویش
جب بڑھی دل سے تو آفاق میں پھیلی تشویش
تیزیٔ بادہ کجا تلخیٔ گفتار کجا
کند ہے نشتر ساقی سے سنان واعظ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا ہوا ویراں کیا گر محتسب نے مے کدہ
جمع پھر کل شام تک ہر ایک شے ہو جائے گی
تیرا کوچہ ہے وہ اے بت کہ ہزاروں زاہد
ڈال کے سبحہ میں یاں رشتۂ زنار چلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں آتی ہیں اب میرے تنفس کی صدائیں
جس طرح سے دیتا ہے کوئی نوحہ گر آواز
برہمن شیخ کو کر دے نگاہ ناز اس بت کی
گلوئے زہد میں تار نظر زنار بن جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جلوہ گر دل میں خیال عارض جانانہ تھا
گھر کی زینت تھی کہ زینت بخش صاحب خانہ تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لکھ کر مقطعات میں دیں ان کو عرضیاں
جو دائرے تھے کاسۂ دست گدا ہوئے
محتسب تو نے کیا گر جام صہبا پاش پاش
جبہ و عمامہ ہم کر دیں گے سارا پاش پاش