Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Iqbal Azeem's Photo'

اقبال عظیم

1913 - 2000 | کراچی, پاکستان

اقبال عظیم کے اشعار

12.4K
Favorite

باعتبار

جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر

سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے

آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب

خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے

یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر

اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں

ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے

اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو

سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے

بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں

اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں

اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے

اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں

جب گھر کی آگ بجھی تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے

سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو آگ بجھانے آئے تھے

زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو

ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں

جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا

فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا

سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ

ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں

کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں

جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں

اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے

ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے

روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں

میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں

جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو

تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے

منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی

کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں

ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے

درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں

اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے

سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے

مرے جرم وفا کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوگا

سزا کا حکم فوری اور سماعت سرسری ہوگی

بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا

میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں

پرسش حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو

پرسش حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں

حق تنقید تمہیں ہے مگر اس شرط کے ساتھ

جائزہ لیتے رہو اپنے گریبانوں کا

بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی

اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی

زباں خاموش ماتھے پر شکن آنکھوں میں افسانے

کوئی سمجھائے کیا کہتے ہیں اس طرز تکلم کو

گفتگو نذر احتیاط ہوئی

قبل اس کے کہ ابتدا کرتے

کنارے بھی ممد ہوتے ہیں تشکیل تلاطم میں

وہ خوابیدہ نظر آتے ہیں خوابیدہ نہیں ہوتے

عذاب موج و تلاطم مجھے قبول مگر

خدا بچائے عذاب فریب ساحل سے

کوئی روزن ہی زنداں میں نہیں ہے

چلو فرصت ملی فکر سحر سے

ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے

درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے