اقبال عظیم کے اشعار
جھک کر سلام کرنے میں کیا حرج ہے مگر
سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے
آدمی جان کے کھاتا ہے محبت میں فریب
خود فریبی ہی محبت کا صلہ ہو جیسے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یوں سر راہ ملاقات ہوئی ہے اکثر
اس نے دیکھا بھی نہیں ہم نے پکارا بھی نہیں
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
-
موضوع : قاتل
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم بہت دور نکل آئے ہیں چلتے چلتے
اب ٹھہر جائیں کہیں شام کے ڈھلتے ڈھلتے
اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے
اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں
بارہا ان سے نہ ملنے کی قسم کھاتا ہوں میں
اور پھر یہ بات قصداً بھول بھی جاتا ہوں میں
جب گھر کی آگ بجھی تو کچھ سامان بچا تھا جلنے سے
سو وہ بھی ان کے ہاتھ لگا جو آگ بجھانے آئے تھے
زمانہ دیکھا ہے ہم نے ہماری قدر کرو
ہم اپنی آنکھوں میں دنیا بسائے بیٹھے ہیں
جنوں کو ہوش کہاں اہتمام غارت کا
فساد جو بھی جہاں میں ہوا خرد سے ہوا
کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں
جو ہم نے اپنے رفیقوں سے بھی چھپائے ہیں
-
موضوع : درد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس جشن چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جھوٹے چراغوں کو بجھا کیوں نہیں دیتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حق تنقید تمہیں ہے مگر اس شرط کے ساتھ
جائزہ لیتے رہو اپنے گریبانوں کا
منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی
کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفر میں ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سفر پہ نکلے ہیں ہم پورے اہتمام کے ساتھ
ہم اپنے گھر سے کفن ساتھ لے کے آئے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں
مرے جرم وفا کا فیصلہ کچھ اس طرح ہوگا
سزا کا حکم فوری اور سماعت سرسری ہوگی
اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے نیازانہ گزر جائے گزرنے والا
میرے پندار کو اب شوق تماشا بھی نہیں
پرسش حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
پرسش حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں
بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی
اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
زباں خاموش ماتھے پر شکن آنکھوں میں افسانے
کوئی سمجھائے کیا کہتے ہیں اس طرز تکلم کو
عذاب موج و تلاطم مجھے قبول مگر
خدا بچائے عذاب فریب ساحل سے
کنارے بھی ممد ہوتے ہیں تشکیل تلاطم میں
وہ خوابیدہ نظر آتے ہیں خوابیدہ نہیں ہوتے
ہاتھ پھیلاؤں میں عیسیٰ نفسوں کے آگے
درد پہلو میں مرے ہے مگر اتنا بھی نہیں