Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Jaun Eliya's Photo'

جون ایلیا

1931 - 2002 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور

پاکستان کے اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے غیر روایتی طور طریقوں کے لیے مشہور

جون ایلیا کے اشعار

559.6K
Favorite

باعتبار

میں جرم کا اعتراف کر کے

کچھ اور ہے جو چھپا گیا ہوں

تیغ تو جونؔ پھینک دیجے مگر

ہاتھ میں اپنے ڈھال تو رکھئے

پوچھ نہ وصل کا حساب حال ہے اب بہت خراب

رشتۂ جسم و جاں کے بیچ جسم حرام ہو گیا

مری شراب کا شہرہ ہے اب زمانے میں

سو یہ کرم ہے تو کس کا ہے اب بھی آ جاؤ

جان من تیری بے نقابی نے

آج کتنے نقاب بیچے ہیں

اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے

بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں

ہمارے زخم تمنا پرانے ہو گئے ہیں

کہ اس گلی میں گئے اب زمانے ہو گئے ہیں

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم

تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

یہ غم کیا دل کی عادت ہے نہیں تو

کسی سے کچھ شکایت ہے نہیں تو

نئی خواہش رچائی جا رہی ہے

تری فرقت منائی جا رہی ہے

حملہ ہے چار سو در و دیوار شہر کا

سب جنگلوں کو شہر کے اندر سمیٹ لو

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی

کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

مجھے اب تم سے ڈر لگنے لگا ہے

تمہیں مجھ سے محبت ہو گئی کیا

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ

مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا

خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی

میں بھی برباد ہو گیا تو بھی

جرم میں ہم کمی کریں بھی تو کیوں

تم سزا بھی تو کم نہیں کرتے

حسن کہتا تھا چھیڑنے والے

چھیڑنا ہی تو بس نہیں چھو بھی

کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے

روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر

تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا

کیا ہے جو بدل گئی ہے دنیا

میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں

علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں

وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے

گھر سے ہم گھر تلک گئے ہوں گے

اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے

اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا

میں بھی گویا اسی کو بھول گیا

وہ ہجوم دل زدگاں کہ تھا تجھے مژدہ ہو کہ بکھر گیا

ترے آستانے کی خیر ہو سر رہ غبار بھی اب نہیں

ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر

سوچتا ہوں تری حمایت میں

میں اس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا

اتارے کون اب دیوار پر سے

سوچا ہے کہ اب کار مسیحا نہ کریں گے

وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے

ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد

دیکھنے والے ہاتھ ملتے ہیں

گو اپنے ہزار نام رکھ لوں

پر اپنے سوا میں اور کیا ہوں

کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختوں

کچھ نہیں کوئی بد دعا بھیجو

رویا ہوں تو اپنے دوستوں میں

پر تجھ سے تو ہنس کے ہی ملا ہوں

جونؔ دنیا کی چاکری کر کے

تو نے دل کی وہ نوکری کیا کی

کل کا دن ہائے کل کا دن اے جونؔ

کاش اس رات ہم بھی مر جائیں

ٹھیک ہے خود کو ہم بدلتے ہیں

شکریہ مشورت کا چلتے ہیں

بن تمہارے کبھی نہیں آئی

کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

جان لیوا تھیں خواہشیں ورنہ

وصل سے انتظار اچھا تھا

تیرا خیال خواب خواب خلوت جاں کی آب و تاب

جسم جمیل و نوجواں شام بخیر شب بخیر

کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں

ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستان کے تھے

اے صبح میں اب کہاں رہا ہوں

خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں

ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں

آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی

کوئی مجھ تک پہنچ نہیں پاتا

اتنا آسان ہے پتا میرا

تیغ بازی کا شوق اپنی جگہ

آپ تو قتل عام کر رہے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے

اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

آئینوں کو زنگ لگا

اب میں کیسا لگتا ہوں

ایک سرود روشنی نیمۂ شب کا خواب تھا

ایک خموش تیرگی سانحہ آشنا بھی تھی

آج مجھ کو بہت برا کہہ کر

آپ نے نام تو لیا میرا

اب کہ جب جانانہ تم کو ہے سبھی پر اعتبار

اب تمہیں جانانہ مجھ پر اعتبار آیا تو کیا

وفا اخلاص قربانی محبت

اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

حاصل کن ہے یہ جہان خراب

یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

سب میرے بغیر مطمئن ہیں

میں سب کے بغیر جی رہا ہوں

Recitation

بولیے