جرأت قلندر بخش کے اشعار
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب
عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیا
-
موضوع : بوسہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہے عاشق و معشوق میں یہ فرق کہ محبوب
تصویر تفرج ہے وہ پتلا ہے الم کا
کیفیت محفل خوباں کی نہ اس بن پوچھو
اس کو دیکھوں نہ تو پھر دے مجھے دکھلائی کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہیں لازم و ملزوم بہم حسن و محبت
ہم ہوتے نہ طالب جو وہ مطلوب نہ ہوتا
احوال کیا بیاں میں کروں ہائے اے طبیب
ہے درد اس جگہ کہ جہاں کا نہیں علاج
بھری جو حسرت و یاس اپنی گفتگو میں ہے
خدا ہی جانے کہ بندہ کس آرزو میں ہے
سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے
کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر
لب خیال سے اس لب کا جو لیا بوسہ
تو منہ ہی منہ میں عجب طرح کا مزا آیا
بال ہیں بکھرے بینڈ ہیں ٹوٹے کان میں ٹیڑھا بالا ہے
جرأتؔ ہم پہچان گئے ہیں دال میں کالا کالا ہے
ٹھہری تھی غذا اپنی جو غم عشق بتاں میں
سو آہ ہماری ہمیں خوراک نے کھایا
آنکھ اٹھا کر اسے دیکھوں ہوں تو نظروں میں مجھے
یوں جتاتا ہے کہ کیا تجھ کو نہیں ڈر میرا
کھائے سو پچھتائے اور پچھتائے وہ بھی جو نہ کھائے
یہ غم عشق بتاں لڈو ہے گویا بور کا
دل وحشی کو خواہش ہے تمہارے در پہ آنے کی
دوانا ہے ولیکن بات کرتا ہے ٹھکانے کی
لگتے ہی ہاتھ کے جو کھینچے ہے روح تن سے
کیا جانیں کیا وہ شے ہے اس کے بدن کے اندر
چاہ کی چتون مری آنکھ اس کی شرمائی ہوئی
تاڑ لی مجلس میں سب نے سخت رسوائی ہوئی
پوچھو نہ کچھ سبب مرے حال تباہ کا
الفت کا یہ ثمر ہے نتیجہ ہے چاہ کا
اللہ رے بھلاپا منہ دھو کے خود وہ بولے
سونگھو تو ہو گیا یہ پانی گلاب کیوں کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک بوسہ مانگتا ہوں میں خیرات حسن کی
دو مال کی زکوٰۃ کہ دولت زیادہ ہو
کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت
کہتے تھے سب ادھر سے عجب برہمن گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب تلک ہم نہ چاہتے تھے تجھے
تب تک ایسا ترا جمال نہ تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رنجشیں ایسی ہزار آپس میں ہوتی ہیں دلا
وہ اگر تجھ سے خفا ہے تو ہی جا مل کیا ہوا
-
موضوع : یکجہتی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوبان جہاں کی ہے ترے حسن سے خوبی
تو خوب نہ ہوتا تو کوئی خوب نہ ہوتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ
یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رکھے ہے لذت بوسہ سے مجھ کو گر محروم
تو اپنے تو بھی نہ ہونٹوں تلک زباں پہنچا
غم مجھے ناتوان رکھتا ہے
عشق بھی اک نشان رکھتا ہے
تا فلک لے گئی بیتابیٔ دل تب بولے
حضرت عشق کہ پہلا ہے یہ زینا اپنا
-
موضوع : ہزار داستان عشق
جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا
ہمارا شعر بھی مشہور ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں تو حیراں ہوں مطب ہے کہ در یار ہے یہ
یاں تو بیمار پہ بیمار چلے آتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پیچھے پیچھے مرے چلنے سے رکو مت صاحب
کوئی پوچھے گا تو کہیو یہ ہے نوکر میرا
اس شخص نے کل ہاتوں ہی ہاتوں میں فلک پر
سو بار چڑھایا مجھے سو بار اتارا
میرے مرنے کی خبر سن کر لگا کہنے وہ شوخ
دل ہی دل میں اپنے کچھ کچھ سوچ کر اچھا ہوا
جو آج چڑھاتے ہیں ہمیں عرش بریں پر
دو دن کو اتاریں گے وہی لوگ زمیں پر
چپکے چپکے روتے ہیں منہ پر دوپٹہ تان کر
گھر جو یاد آیا کسی کا اپنے گھر میں آن کر
مجھ مست کو کیوں بھائے نہ وہ سانولی صورت
جی دوڑے ہے میکش کا غذائے نمکیں پر
کیا کیا کیا ہے کوچہ بہ کوچہ مجھے خراب
خانہ خراب ہو دل خانہ خراب کا
جلدی طلب بوسہ پہ کیجے تو کہے واہ
ایسا اسے کیا سمجھے ہو تم منہ کا نوالا
ہجر میں مضطرب سا ہو ہو کے
چار سو دیکھتا ہوں رو رو کے
مجھ کو ہوا یہ خاک نشینی سے فائدہ
تھا دل کے آئنے پہ جو کچھ رنگ اڑ گیا
آنکھ لگتی نہیں جرأتؔ مری اب ساری رات
آنکھ لگتے ہی یہ کیسا مجھے آزار لگا
بوسے گر ہم نے لیے ہیں تو دیے بھی تم کو
چھٹ گئے آپ کے احساں سے برابر ہو کر
یہ سواد شہر اور ایسا کہاں حسن ملیح
شش جہت میں ملک دیکھا ہی نہیں پنجاب سا
مثل مجنوں جو پریشاں ہے بیابان میں آج
کیوں دلا کون سمایا ہے ترے دھیان میں آج
پیام اب وہ نہیں بھیجتا زبانی بھی
کہ جس کی ہونٹوں میں لیتے تھے ہم زباں ہر روز
بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر
وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر
-
موضوع : خواب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شب خواب میں جو اس کے دہن سے دہن لگا
کھلتے ہی آنکھ کانپنے سارا بدن لگا
تجھ سا جو کوئی تجھ کو مل جائے گا تو باتیں
میری طرح سے تو بھی چپکا سنا کرے گا
لاش کو میری چھپا کر اک کنویں میں ڈال دو
یارو میں کشتہ ہوں اک پردہ نشیں کی چاہ کا
آج گھیرا ہی تھا اسے میں نے
کر کے اقرار مجھ سے چھوٹ گیا