Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

جرأت قلندر بخش

1748 - 1809 | لکھنؤ, انڈیا

اپنی شاعری میں محبوب کے ساتھ معاملہ بندی کےمضمون کے لیے مشہور،نوجوانی میں بینائی سے محروم ہوگئے

اپنی شاعری میں محبوب کے ساتھ معاملہ بندی کےمضمون کے لیے مشہور،نوجوانی میں بینائی سے محروم ہوگئے

جرأت قلندر بخش کے اشعار

7.6K
Favorite

باعتبار

جلد خو اپنی بدل ورنہ کوئی کر کے طلسم

آ کے دل اپنا ترے دل سے بدل جاؤں گا

کافر ہوں جو محرم پہ بھی ہاتھ اس کے لگا ہو

مشہور غلط محرم اسرار ہوئے ہم

تا فلک لے گئی بیتابیٔ دل تب بولے

حضرت عشق کہ پہلا ہے یہ زینا اپنا

اک بوسہ مانگتا ہوں میں خیرات حسن کی

دو مال کی زکوٰۃ کہ دولت زیادہ ہو

کیا آتش فرقت نے بری پائی ہے تاثیر

اس آگ سے پانی بھی بجھایا نہیں جاتا

بھری جو حسرت و یاس اپنی گفتگو میں ہے

خدا ہی جانے کہ بندہ کس آرزو میں ہے

ہم دوانوں کا یہ ہے دشت جنوں میں رتبہ

کہ قدم رکھتے ہی آ پاؤں سے ہر خار لگا

یوں قطرے مرے خون کے اس تیغ سے گزرے

جوں فوج کا پل پر سے ہو دشوار اتارا

گلشن میں جو وصف اس کا کہوں دھیان لگا کر

ہر گل مری باتوں کو سنے کان لگا کر

یہ آگ لگا دی کہ نہیں انجم و افلاک

یہ داغ پہ ہے داغ یہ چھالے پہ ہے چھالا

جہاں کچھ درد کا مذکور ہوگا

ہمارا شعر بھی مشہور ہوگا

شاگرد رشید آپ سا ہوں شیخ جی صاحب

کچھ علم و عمل تم نے نہ شیطان میں چھوڑا

کھائے سو پچھتائے اور پچھتائے وہ بھی جو نہ کھائے

یہ غم عشق بتاں لڈو ہے گویا بور کا

سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے

کبھو تو ایک بوسے سے ہمارا منہ بھی میٹھا کر

اک بازیٔ عشق سے ہیں عاری

کھیلے ہیں وگرنہ سب جوئے ہم

ہے عاشق و معشوق میں یہ فرق کہ محبوب

تصویر تفرج ہے وہ پتلا ہے الم کا

بوسے گر ہم نے لیے ہیں تو دیے بھی تم کو

چھٹ گئے آپ کے احساں سے برابر ہو کر

آج گھیرا ہی تھا اسے میں نے

کر کے اقرار مجھ سے چھوٹ گیا

نو گرفتار محبت ہوں مری وضع سے تم

اتنا گھبراؤ نہ پیارے میں سنبھل جاؤں گا

مل گئے تھے ایک بار اس کے جو میرے لب سے لب

عمر بھر ہونٹوں پہ اپنے میں زباں پھیرا کیا

دل کی کیا پوچھے ہے اک قطرۂ خوں تھا ہمدم

سو غم عشق نے آتے ہی اسے نوش کیا

مجھ کو ہوا یہ خاک نشینی سے فائدہ

تھا دل کے آئنے پہ جو کچھ رنگ اڑ گیا

وارستہ کر دیا جسے الفت نے بس وہ شخص

کب دام کفر و رشتۂ اسلام میں پھنسا

کشت دل فوج غم نے کی تاراج

تس پہ تو مانگنے خراج آیا

کل اس صنم کے کوچے سے نکلا جو شیخ وقت

کہتے تھے سب ادھر سے عجب برہمن گیا

دل مضطر یہ کہے ہے وہیں لے چل ورنہ

توڑ چھاتی کے کواڑوں کو نکل جاؤں گا

تھے بیابان محبت میں جو گریاں آہ ہم

منزل مقصود کو پہنچے تری کی راہ ہم

یاں زیست کا خطرہ نہیں ہاں کھینچیے تلوار

وہ غیر تھا جو دیکھ کے صمصام ڈرے تھا

پیچھے پیچھے مرے چلنے سے رکو مت صاحب

کوئی پوچھے گا تو کہیو یہ ہے نوکر میرا

پیام اب وہ نہیں بھیجتا زبانی بھی

کہ جس کی ہونٹوں میں لیتے تھے ہم زباں ہر روز

شب خواب میں جو اس کے دہن سے دہن لگا

کھلتے ہی آنکھ کانپنے سارا بدن لگا

دیکھا زاہد نے جو اس روئے کتابی کو تو بس

ورق کفر لیا دفتر ایمان کو پھاڑ

شیخ جی ہم تو ہیں ناداں پر اسے آنے دو

ہم بھی پوچھیں گے ہوئی آپ کی دانائی کیا

مشہور جوانی میں ہو وہ کیوں نہ جگت باز

میلان طبیعت تھا لڑکپن سے ضلے پر

مثل آئینہ با صفا ہیں ہم

دیکھنے ہی کے آشنا ہیں ہم

چلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ

یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر

روؤں تو خوش ہو کے پیے ہے وہ مے

سمجھے ہے موسم اسے برسات کا

مثل مجنوں جو پریشاں ہے بیابان میں آج

کیوں دلا کون سمایا ہے ترے دھیان میں آج

ٹھہری تھی غذا اپنی جو غم عشق بتاں میں

سو آہ ہماری ہمیں خوراک نے کھایا

آگے تھا دل ہی مرا اب ہے کھدا آپ کا نام

ذوق سے سمجھیے آپ اس کو نگینہ اپنا

بے حس و حیراں جو ہوں گھر میں پڑا اس کے عوض

کاش میں نقش قدم ہوتا کسی کی راہ کا

کیا کیا کیا ہے کوچہ بہ کوچہ مجھے خراب

خانہ خراب ہو دل خانہ خراب کا

طبع کہہ اور غزل، ہے یہ نظیریؔ کا جواب

ریختہ یہ جو پڑھا قابل اظہار نہ تھا

سر دیجے راہ عشق میں پر منہ نہ موڑیے

پتھر کی سی لکیر ہے یہ کوہکن کی بات

شاید اسی کا ذکر ہو یارو میں اس لیے

سنتا ہوں گوش دل سے ہر اک مرد و زن کی بات

لذت وصل کوئی پوچھے تو پی جاتا ہوں

کہہ کے ہونٹوں ہی میں ہونٹوں کے ملانے کا مزا

پوچھو نہ کچھ سبب مرے حال تباہ کا

الفت کا یہ ثمر ہے نتیجہ ہے چاہ کا

کہیے کیوں کر نہ اسے بادشہ کشور حسن

کہ جہاں جا کے وہ بیٹھا وہیں دربار لگا

دل جگر کی مرے پوچھے ہے خبر کیا ہے اے یار

نوک مژگاں پہ ذرا دیکھ نمودار ہے کیا

رہے قفس ہی میں ہم اور چمن میں پھر پھر کر

ہزار مرتبہ موسم بہار کا پہنچا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے