Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Malikzaada Manzoor Ahmad's Photo'

ملک زادہ منظور احمد

1929 - 2016 | لکھنؤ, انڈیا

اردو کی ممتازادبی شخصیت۔ مشاعروں کی معیار نظامت کے لئے مشہور

اردو کی ممتازادبی شخصیت۔ مشاعروں کی معیار نظامت کے لئے مشہور

ملک زادہ منظور احمد کے اشعار

7.4K
Favorite

باعتبار

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

چہرے پہ سارے شہر کے گرد ملال ہے

جو دل کا حال ہے وہی دلی کا حال ہے

وہی قاتل وہی منصف عدالت اس کی وہ شاہد

بہت سے فیصلوں میں اب طرف داری بھی ہوتی ہے

دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی

کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا

انہیں ٹھہرے سمندر نے ڈبویا

جنہیں طوفاں کا اندازا بہت تھا

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے

آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

رسم تعظیم نہ رسوا ہو جائے

اتنا مت جھکئے کہ سجدہ ہو جائے

عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں

کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

روشن چہرہ بھیگی زلفیں دوں کس کو کس پر ترجیح

ایک قصیدہ دھوپ کا لکھوں ایک غزل برسات کے نام

کچھ غم جاناں کچھ غم دوراں دونوں میری ذات کے نام

ایک غزل منسوب ہے اس سے ایک غزل حالات کے نام

اب دیکھ کے اپنی صورت کو اک چوٹ سی دل پر لگتی ہے

گزرے ہوئے لمحے کہتے ہیں آئینہ بھی پتھر ہوتا ہے

عرض طلب پر اس کی چپ سے ظاہر ہے انکار مگر

شاید وہ کچھ سوچ رہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

جن سفینوں نے کبھی توڑا تھا موجوں کا غرور

اس جگہ ڈوبے جہاں دریا میں طغیانی نہ تھی

کیا جانئے کیسی تھی وہ ہوا چونکا نہ شجر پتہ نہ ہلا

بیٹھا تھا میں جس کے سائے میں منظورؔ وہی دیوار گری

زندگی میں پہلے اتنی تو پریشانی نہ تھی

تنگ دامانی تھی لیکن چاک دامانی نہ تھی

وقت شاہد ہے کہ ہر دور میں عیسیٰ کی طرح

ہم صلیبوں پہ لیے اپنی صداقت آئے

حال پریشاں سن کر میرا آنکھ میں اس کی آنسو ہیں

میں نے اس سے جھوٹ کہا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

دیوانہ ہر اک حال میں دیوانہ رہے گا

فرزانہ کہا جائے کہ دیوانہ کہا جائے

کھل اٹھے گل یا کھلے دست حنائی تیرے

ہر طرف تو ہے تو پھر تیرا پتا کس سے کریں

نہ خوف برق نہ خوف شرر لگے ہے مجھے

خود اپنے باغ کو پھولوں سے ڈر لگے ہے مجھے

بے چہرگی کی بھیڑ میں گم ہے مرا وجود

میں خود کو ڈھونڈھتا ہوں مجھے خد و خال دے

کاش دولت غم ہی اپنے پاس بچ رہتی

وہ بھی ان کو دے بیٹھے ایسی مات کھائی ہے

دور عشرت نے سنوارے ہیں غزل کے گیسو

فکر کے پہلو مگر غم کی بدولت آئے

Recitation

بولیے