Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Rajesh Reddy's Photo'

راجیش ریڈی

1952 | ممبئی, انڈیا

سماجی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والے مقبول عام شاعر

سماجی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والے مقبول عام شاعر

راجیش ریڈی کے اشعار

10.3K
Favorite

باعتبار

دل بھی اک ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح

یا تو سب کچھ ہی اسے چاہئے یا کچھ بھی نہیں

شام کو جس وقت خالی ہاتھ گھر جاتا ہوں میں

مسکرا دیتے ہیں بچے اور مر جاتا ہوں میں

مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ

بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے

کسی دن زندگانی میں کرشمہ کیوں نہیں ہوتا

میں ہر دن جاگ تو جاتا ہوں زندہ کیوں نہیں ہوتا

یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے

کھلونا ہے جو مٹی کا فنا ہونے سے ڈرتا ہے

جتنی بٹنی تھی بٹ چکی یہ زمیں

اب تو بس آسمان باقی ہے

دھوکہ ہے اک فریب ہے منزل کا ہر خیال

سچ پوچھئے تو سارا سفر واپسی کا ہے

غم بک رہے تھے میلے میں خوشیوں کے نام پر

مایوس ہو کے لوٹے ہیں ہر اک دکاں سے ہم

یہ جو زندگی کی کتاب ہے یہ کتاب بھی کیا کتاب ہے

کہیں اک حسین سا خواب ہے کہیں جان لیوا عذاب ہے

کس نے پایا سکون دنیا میں

زندگانی کا سامنا کر کے

کیا جانے کس جہاں میں ملے گا ہمیں سکون

ناراض ہیں زمیں سے خفا آسماں سے ہم

ملتے نہیں ہیں اپنی کہانی میں ہم کہیں

غائب ہوئے ہیں جب سے تری داستاں سے ہم

میں نے تو بعد میں توڑا تھا اسے

آئینہ مجھ پہ ہنسا تھا پہلے

کچھ اس طرح گزارا ہے زندگی کو ہم نے

جیسے کہ خود پہ کوئی احسان کر لیا ہے

دوستوں کا کیا ہے وہ تو یوں بھی مل جاتے ہیں مفت

روز اک سچ بول کر دشمن کمانے چاہئیں

بلندی کے لیے بس اپنی ہی نظروں سے گرنا تھا

ہماری کم نصیبی ہم میں کچھ غیرت زیادہ تھی

کون پڑھتا ہے یہاں کھول کے اب دل کی کتاب

اب تو چہرے کو ہی اخبار کیا جانا ہے

نیند کو ڈھونڈ کے لانے کی دوائیں تھیں بہت

کام مشکل تو کوئی خواب حسیں ڈھونڈھنا تھا

مری اک زندگی کے کتنے حصے دار ہیں لیکن

کسی کی زندگی میں میرا حصہ کیوں نہیں ہوتا

کچھ پرندوں کو تو بس دو چار دانے چاہئیں

کچھ کو لیکن آسمانوں کے خزانے چاہئیں

بہانہ کوئی تو اے زندگی دے

کہ جینے کے لئے مجبور ہو جاؤں

دل بھی بچے کی طرح ضد پہ اڑا تھا اپنا

جو جہاں تھا ہی نہیں اس کو وہیں ڈھونڈھنا تھا

سفر میں اب کے عجب تجربہ نکل آیا

بھٹک گیا تو نیا راستہ نکل آیا

میسر مفت میں تھے آسماں کے چاند تارے تک

زمیں کے ہر کھلونے کی مگر قیمت زیادہ تھی

مسئلہ یہ نہیں کہ عشق ہوا ہے ہم کو

مسئلہ یہ ہے کہ اظہار کیا جانا ہے

کیا ایجاد جس نے بھی خدا کو

وہ خود کو کیسے بہلاتا تھا پہلے

ساتھ غالبؔ کے گئی فکر کی گہرائی بھی

اور لہجہ بھی گیا میرتقی میرؔ کے ساتھ

سب لوگ اس سے پہلے کہ دیوتا سمجھتے

ہم نے ذرا سا خود کو انسان کر لیا ہے

اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس

لینے لگے ہیں کام یقیں کا گماں سے ہم

مری غزل میں کسی بے وفا کا ذکر نہ تھا

نہ جانے کیسے ترا تذکرہ نکل آیا

آدمی ہی کے بنائے ہوئے زنداں ہیں یہ سب

کوئی پیدا نہیں ہوتا کسی زنجیر کے ساتھ

میری آنکھیں یہ کہا کرتی ہیں اکثر مجھ سے

آپ دیکھی ہوئی چیزوں کو بہت دیکھتے ہیں

بڑی تصویر لٹکا دی ہے اپنی

جہاں چھوٹا سا آئینہ تھا پہلے

جستجو کا اک عجب سلسلہ تا عمر رہا

خود کو کھونا تھا کہیں اور کہیں ڈھونڈھنا تھا

اجازت کم تھی جینے کی مگر مہلت زیادہ تھی

ہمارے پاس مرنے کے لیے فرصت زیادہ تھی

یا خدا اب کے یہ کس رنگ میں آئی ہے بہار

زرد ہی زرد ہے پیڑوں پہ ہرا کچھ بھی نہیں

ہاتھ اٹھاتا ہے دعاؤں کو فلک بھی اس دم

جب پرندہ کوئی پرواز کو پر تولتا ہے

سوچ لو کل کہیں آنسو نہ بہانے پڑ جائیں

خون کا کیا ہے رگوں میں وہ یونہی کھولتا ہے

وہ دل سے کم زباں ہی سے زیادہ بات کرتا تھا

جبھی اس کے یہاں گہرائی کم وسعت زیادہ تھی

نئی لاشیں بچھانے کے لیے ہی

گڑے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں

Recitation

بولیے