فساد پر اشعار
فساد پر یہ شاعری فساد کی بھیانک صورتوں اور ان کے نتیجے میں برپا ہونے والی انسانی تباہی کا تخلیقی بیان ہے ۔ آج کے عہد میں بیشتر انسانی آبادیاں فساد کی کسی نہ کسی شکل کی زد میں ہیں اور جانی ، مالی ، تہذیبی اور ثقافتی تباہیوں کو ایک سلسلہ جاری ہے ۔ ایسے دور میں اگر یہ شاعری ہمارے اندر پیدا ہونے والے برے جذبوں کو شانت کردے تو بڑی بات ہوگی ۔
دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
یہاں ایک بچے کے خون سے جو لکھا ہوا ہے اسے پڑھیں
ترا کیرتن ابھی پاپ ہے ابھی میرا سجدہ حرام ہے
اس قدر میں نے سلگتے ہوئے گھر دیکھے ہیں
اب تو چبھنے لگے آنکھوں میں اجالے مجھ کو
چاروں طرف ہیں شعلے ہمسائے جل رہے ہیں
میں گھر میں بیٹھا بیٹھا بس ہاتھ مل رہا ہوں
جلے مکانوں میں بھوت بیٹھے بڑی متانت سے سوچتے ہیں
کہ جنگلوں سے نکل کر آنے کی کیا ضرورت تھی آدمی کو
آج کھلیں گے مرے خون سے ہولی سب لوگ
کتنا رنگین ہر اک شخص کا داماں ہوگا
ایسی ہوا بہی کہ ہے چاروں طرف فساد
جز سایۂ خدا کہیں دارالاماں نہیں