Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شوخی پر اشعار

شوخی معشوق کے حسن میں

مزید اضافہ کرتی ہے۔ معشوق اگر شوخ نہ ہو تو اس کے حسن میں ایک ذرا کمی تو رہ جاتی ہے ۔ ہمارے انتخاب کئے ہوئے ان اشعار میں آپ دیکھیں گے کہ معشوق کی شوخیاں کتنی دلچسپ اور مزے دار ہیں ان کا اظہار اکثر جگہوں پر عاشق کے ساتھ مکالمے میں ہوا ہے ۔

فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا

نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے

علامہ اقبال

پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح

زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں

آرزو لکھنوی

جو کہا میں نے کہ پیار آتا ہے مجھ کو تم پر

ہنس کے کہنے لگا اور آپ کو آتا کیا ہے

اکبر الہ آبادی

عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی

ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی

اکبر الہ آبادی

ساتھ شوخی کے کچھ حجاب بھی ہے

اس ادا کا کہیں جواب بھی ہے

داغؔ دہلوی

پردۂ لطف میں یہ ظلم و ستم کیا کہیے

ہائے ظالم ترا انداز کرم کیا کہیے

فراق گورکھپوری

ذرا ان کی شوخی تو دیکھنا لیے زلف خم شدہ ہاتھ میں

میرے پاس آئے دبے دبے مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

نواب سلطان جہاں بیگم

کہا میں نے مرتا ہوں تم پر تو بولے

نکلتے نہ دیکھا جنازہ کسی کا

نامعلوم

شوخی سے ٹھہرتی نہیں قاتل کی نظر آج

یہ برق بلا دیکھیے گرتی ہے کدھر آج

داغؔ دہلوی

شوخیٔ حسن کے نظارے کی طاقت ہے کہاں

طفل ناداں ہوں میں بجلی سے دہل جاتا ہوں

مصحفی غلام ہمدانی
بولیے