Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دلچسپ موضوعات اور معروف شاعروں کے منتخب ۲۰ اشعار
اردو کا پہلا آن لائن کراس ورڈ معمہ۔ زبان و ادب سے متعلق دلچسپ معمے حل کیجیے اور اپنی معلومات میں اضافہ کیجیے۔
معمہ حل کیجیےنئی اور پرانی اردو و ہندی کتابیں صرف RekhtaBooks.com پر حاصل کریں۔
Rekhtabooks.com کو براؤز کریں۔Quiz A collection of interesting questions related to Urdu poetry, prose and literary history. Play Rekhta Quiz and check your knowledge about Urdu!
عشق کے حوالے سے شمع اور پروانہ کے بزاروں ایک سے بڑھ کر ایک شعر اردو شاعری میں بھرے پڑے ہیں۔
پروانوں کا تو حشر جو ہونا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں
شاد عظیم آبادی
لیکن اردو میں ایک اور بھی "پروانہ" ہے جو پتنگا نہیں ہے نہ ہی اس کا شمع سے کوئ تعلق ہے۔ اس لفظ پروانہ کے معنی ہیں اجازت نامہ، منظوری، سرکاری یا شاہی حکم اور وارنٹ وغیرہ اس قانونی لفظ کو شاعری سے کیا لینا دینا؟
لیکن اکبر الہ آبادی سرسید کے تعلیمی مشن اور انگریزی صاحبوں کی خوشنودی پر طنز کے تیر چلاتے ہوئے اس قانونی 'پروانے' کو بھی شاعری میں لے ہی آئے اور وہ بھی انگریزی الفاظ loyalty اور honour کے ساتھ۔
دلا دے ہم کو بھی صاحب سے لوئلٹی کا پروانہ
قیامت تک رہے سید ترے آنر کا افسانہ
اس کے علاوہ اردو لغت میں یہ بھی ملتا ہے کہ پروانہ ایک چھوٹا سا جانور بھی ہوتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ شیر کے آگے آگے چیختا ہوا چلتا ہے تاکہ دوسرے جانور شیر کی موجودگی سے خبر دار ہو کے چھپ جائیں۔ ہوسکتا ہے کوئ شاعر اس پر بھی شعر لکھ دے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ نقلی کرنسی بنانے اور لفظ "قلب" یعنی دل کا کیا تعلق ہے۔ نقلی کرنسی بنانے کو "قلب سازی" کہتے ہیں۔ سننے میں تو یہ کوئی نئ میڈیکل اصطلاح لگتی ہے نا؟ یہ عربی لفظ قلب اور فارسی لفظ "سازی" یعنی بنانے سے مل کر بنی ہے۔ لفظ قلب عام طور پر دل کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن لفظ قلب کے ایک معنی اور بھی ہیں۔ کسی چیز کو الٹ دینا، الٹ جانا، ہیئت کا بالکل تبدیل ہو جانا۔ اس معنی کی روشنی میں نقلی کرنسی بنانے کی اصطلاح "قلب سازی" سمجھی جاسکتی ہے۔
میاں داد خاں سیاح (1829/30-1907 )اردو کے نامور، منچلے، سیر وسیاحت کے شوقین شاعر تھے۔ ان پر جعلی نوٹ چھاپنے کے جرم میں "مقدمۂ قلب سازی" چلا تھا اور انھیں چودہ سال سزائے قید ہوئی تھی۔ ملکۂ وکٹوریہ کی سلور جوبلی کے موقع پر انھوں نےملکہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھ کر بھجوایا، جس کے صلے میں ان کی سزا کئی سال کم کردی گئ تھی۔
'خامہ بگوش' کون ہے؟ خامہ یعنی قلم اور گوش یعنی کان۔ کان پر قلم رکھنے کو خامہ بگوش کہتے ہیں اور یہ دلچسپ قلمی نام اردو ادب کے ایک بہت قابل محقق، شاعر اور نقاد مشفق خواجہ نے کراچی کے ایک اخبار میں ادبی کالم لکھنے کے لئے اپنایا تھا۔ یہ کالم اپنے شگفتہ اور چبھتے ہوئے جملوں کی وجہ سے بے حد مشہور ہوئے اور بعد میں ایک کتاب "خامہ بگوش کے قلم سے" کے نام سے شائع ہوئے۔ انھوں نے 'لاغر مرادآبادی' کے نام سے ایک دلچسپ کردار تخلیق کیا تھا، جس کی زبانی خامہ بگوش ہند و پاک کے شاعروں اور مصنفوں کی تخلیقات پر دلچسپ تبصرے کرواتے تھے۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ مشفق خواجہ اپنے ذاتی کتابوں کے ذخیرے کے لئے بھی مشہور تھے۔ ان کی لائبریری میں سترہ ہزار سے زیادہ کتابیں تھیں۔ کراچی میں ان کے گھر میں گیارہ کمرے تھے جن میں سے دس میں کتابیں رکھی تھیں، اور ان کی دیکھ بھال کے لئے کئ لوگ مقرر تھے۔ مشفق خواجہ کو فوٹو گرافی کا بھی بہت شوق تھا۔ انھوں نے متعدر کیمروں اور سیکڑوں تصاویر کا بھی ایک ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔
شیریں اور فرہاد کی ایرانی رُومانی داستان میں دودھ کی نہر نکالنے کے لیے اپنے تیشے سے پہاڑ کھود ڈالنے والے فرہاد کو ’’کوہ کَن‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی پہاڑ کھودنے والا۔
کام آئی کوہ کن کی مشقت نہ عشق میں
پتھر سے جوئے شیر کے لانے نے کیا کیا
مرزا رفیع سودا
یہ ترکیب فارسی سے اردو میں آئ ہے۔ "کَن‘‘ کا مطلب ہے ’’کھودنے والا‘‘۔ کان میں کھدائی کرنے والے مزدور کو "کان کَن‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔ پتھر، لکڑی یا دھات وغیرہ کو کھود کر اس پر نقش و نگار اُبھارنے کو ’’کَندہ کرنا‘‘ کہتے ہیں۔
آدھا یا کونا بھی ’’کَن‘‘ کہلاتا ہے۔ جیسے کن انکھیوں سے یعنی گوشہء چشم سے دیکھنا۔
وہ گو کچھ نہ سنتی، نہ کہتی اُسے
کَن انکھیوں سے پَر دیکھ رہتی اُسے
(مولوی میرحسن ۔ مثنوی ’’سحرالبیان)
’’کارکُن‘‘ بھی فارسی ترکیب ہے۔ کاف پر پیش کے ساتھ ’’کُن‘‘ کا مطلب ہے ’’کرنے والا‘‘۔ ’’کار‘‘ فارسی میں ’’کام‘‘ کو کہتے ہیں۔ ’’کارکُن‘‘ یعنی کام کرنے والا۔ اسی طرح ہے ’’حیران کُن‘‘ حیران کرنے والا اور ’’پریشان کُن‘‘ پریشان کرنے والا ۔
بغیر ترنم کے شاعری سنانے کو "تحت الفظ" کہا جاتا ہے جس کو "تحت میں پڑھنا " بھی کہتے ہیں۔ شاعری کو ترنم سے پیش کیا جائے تو طرز اور پڑھنے والے کی آواز سامعین کو زیادہ تر متوجہ رکھتی ہے۔ جبکہ تحت اللفظ میں شوکت الفاظ، آواز کے اتار چڑھاو سے شاعری کا پورا لطف آتا ہے۔ مشاعروں میں غزلیں اور نظمیں تحت میں بخوبی پڑھی ہی جاتی ہیں لیکن مجلس عزا میں تحت اللفظ مرثیہ پڑھنے والوں نے تو اسے ایک خآص ڈرامائ انداز کا فن بنادیا ہے۔ مشیور مرثیہ گو میر انیس کے ایک ہم عصر مشہور شاعر میر انیس کی مرثیہ گوئ کے قائل نہ تھے، انھوں نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ اتفاقاً انیس کی مجلس میں شرکت ہوئی مرثیے کے دوسرے ہی بند کی بیت:
ساتوں جہنم آتش فرقت میں جلتے ہیں
شعلے تری تلاش میں باہر نکلتے ہیں
" انیس نے اس انداز سے پڑھی کہ مجھے شعلے بھڑکتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور میں ان کا پڑھنا سننے میں ایسا محو ہوا کہ تن بدن کا ہوش نہ رہا "
جب نئی شاعری بصورت آزاد نظم نمودار ہوئی تو مشاعروں میں اس کو سننے کے لیے کوئی آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔ مشہور ایکٹر اور براڈکاسٹر ضیا محی الدین نے ن م راشد کی نظمیں مختلف تقریبوں میں سنانے کا تجربہ کیا۔ انھوں نے کچھ اس طرح یہ نظمیں سنائیں کہ جن سامعین کے لیے یہ نظمیں مبہم اور لایعنی اور شعری کیفیت سے دور تھیں وہ بھی اس پڑھت کے سحر میں آ گئے اور انھیں ان نظموں میں شاعری بھی نظر آرہی تھی اور معنی بھی۔
مقبول انقلابی پاکستانی شاعر ، سیاسی جبر کی مخالفت کے لئے مشہور
ممتاز شاعروں کا منتخب کلام
हिंदी क्षेत्र की भाषाओं-बोलियों का व्यापक शब्दकोश
Buy Urdu & Hindi books online
A vibrant resource for Hindi literature
A feature-rich website dedicated to sufi-bhakti tradition
A trilingual dictionary of Urdu words
The world's largest language festival
Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi
GET YOUR FREE PASS