Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Irfan Siddiqi's Photo'

عرفان صدیقی

1939 - 2004 | لکھنؤ, انڈیا

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

عرفان صدیقی کے اشعار

42.8K
Favorite

باعتبار

ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے

رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

نفرت کے خزانے میں تو کچھ بھی نہیں باقی

تھوڑا سا گزارے کے لیے پیار بچائیں

اپنے چاروں سمت دیواریں اٹھانا رات دن

رات دن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے

اس کی آنکھوں میں نہ جانے عکس کس کا تھا مگر

انگلیوں پر ایک لمس رائیگاں میرا بھی تھا

مجھے یہ زندگی نقصان کا سودا نہیں لگتی

میں آنے والی دنیا کو بھی تخمینے میں رکھتا ہوں

ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر

لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں

شمع خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں

جس کو جانا ہے چلا جائے اجازت کیسی

ابھی سے راستہ کیوں روکنے لگی دنیا

کھڑے ہوئے ہیں ابھی اپنے روبرو ہم لوگ

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں

اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

اجنبی جان کے کیا نام و نشاں پوچھتے ہو

بھائی ہم بھی اسی بستی کے نکالے ہوئے ہیں

کبھی جو زحمت کار رفو نہیں کرتا

ہمارے زخم اسی چارہ گر کے نام تمام

تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

اب آ گئی ہے سحر اپنا گھر سنبھالنے کو

چلوں کہ جاگا ہوا رات بھر کا میں بھی ہوں

اس سے بچھڑے تو تمہیں کوئی نہ پہچانے گا

تم تو پرچھائیں ہو پیکر کی طرف لوٹ چلو

ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دنیا تجھ میں

پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے

مرے گماں نے مرے سب یقیں جلا ڈالے

ذرا سا شعلہ بھری بستیوں کو چاٹ گیا

میں کہاں تک دل سادہ کو بھٹکنے سے بچاؤں

آنکھ جب اٹھے گنہ گار بنا دے مجھ کو

دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب

میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے

روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں

شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر

جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے

جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

ترے سوا کوئی کیسے دکھائی دے مجھ کو

کہ میری آنکھوں پہ ہے دست غائبانہ ترا

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈھ رہا ہوں موقع

اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں

حریف تیغ ستم گر تو کر دیا ہے تجھے

اب اور مجھ سے تو کیا چاہتا ہے سر میرے

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

رفاقتوں کو ذرا سوچنے کا موقع دو

کہ اس کے بعد گھنے جنگلوں کا رستہ ہے

اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہوگا

وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں

ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا

عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا

سمندر ادا فہم تھا رک گیا

کہ ہم پاؤں پانی پہ دھرنے کو تھے

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

جان ہم کار محبت کا صلہ چاہتے تھے

دل سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی

دولت سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے

جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے

یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ

اے پرندو یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا

روز اک نوحہ سر شاخ شجر سنتا ہوں میں

آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے

میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں

یہ ہو کا وقت یہ جنگل گھنا یہ کالی رات

سنو یہاں کوئی خطرہ نہیں ٹھہر جاؤ

بھول جاؤ گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ

کل پھر آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ

سنا تھا میں نے کہ فطرت خلا کی دشمن ہے

سو وہ بدن مری تنہائیوں کو پاٹ گیا

سر برہنہ بیبیوں کے بال چاندی ہو گئے

خیمے پھر استادہ کب ہوں گے ردا کب آئے گی

درد کیسا جو ڈبوئے نہ بہا لے جائے

کیا ندی جس میں روانی ہو نہ گہرائی ہو

یہ ہم نے بھی سنا ہے عالم اسباب ہے دنیا

یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتا ہے

وہ مجھ میں بولنے والا تو چپ ہے برسوں سے

یہ کون ہے جو ترے روبرو پکارتا ہے

اڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند

شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا

اس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انساں

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

ہم بھی پتھر تم بھی پتھر سب پتھر ٹکراؤ

ہم بھی ٹوٹیں تم بھی ٹوٹو سب ٹوٹیں آمین

خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو

عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں

کچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے