Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Imam Bakhsh Nasikh's Photo'

امام بخش ناسخ

1772 - 1838 | لکھنؤ, انڈیا

لکھنو کے ممتاز اور رجحان ساز کلاسیکی شاعر,مرزا غالب کے ہم عصر

لکھنو کے ممتاز اور رجحان ساز کلاسیکی شاعر,مرزا غالب کے ہم عصر

امام بخش ناسخ کی ٹاپ ٢٠ شاعری

زندگی زندہ دلی کا ہے نام

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

دریائے حسن اور بھی دو ہاتھ بڑھ گیا

انگڑائی اس نے نشے میں لی جب اٹھا کے ہاتھ

فرقت یار میں انسان ہوں میں یا کہ سحاب

ہر برس آ کے رلا جاتی ہے برسات مجھے

جستجو کرنی ہر اک امر میں نادانی ہے

جو کہ پیشانی پہ لکھی ہے وہ پیش آنی ہے

تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت

ہم جہاں میں تری تصویر لیے پھرتے ہیں

وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں

ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں

تمام عمر یوں ہی ہو گئی بسر اپنی

شب فراق گئی روز انتظار آیا

لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں

نام لے لے کر ترا راتوں کو چلاتا ہوں میں

اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے

آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا

معشوقوں سے امید وفا رکھتے ہو ناسخؔ

ناداں کوئی دنیا میں نہیں تم سے زیادہ

زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل

تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی

آنے میں سدا دیر لگاتے ہی رہے تم

جاتے رہے ہم جان سے آتے ہی رہے تم

گیا وہ چھوڑ کر رستے میں مجھ کو

اب اس کا نقش پا ہے اور میں ہوں

جس قدر ہم سے تم ہوئے نزدیک

اس قدر دور کر دیا ہم کو

کس طرح چھوڑوں یکایک تیری زلفوں کا خیال

ایک مدت کے یہ کالے ناگ ہیں پالے ہوئے

دیکھ کر تجھ کو قدم اٹھ نہیں سکتا اپنا

بن گئے صورت دیوار ترے کوچے میں

منہ آپ کو دکھا نہیں سکتا ہے شرم سے

اس واسطے ہے پیٹھ ادھر آفتاب کی

کام اوروں کے جاری رہیں ناکام رہیں ہم

اب آپ کی سرکار میں کیا کام ہمارا

کرتی ہے مجھے قتل مرے یار کی تلوار

تلوار کی تلوار ہے رفتار کی رفتار

سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے

کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے