موت پر اشعار
موت سب سے بڑی سچائی
اور سب سے تلخ حقیقت ہے ۔ اس کے بارے میں انسانی ذہن ہمیشہ سے سوچتا رہا ہے ، سوال قائم کرتا رہا ہے اور ان سوالوں کے جواب تلاش کرتا رہا ہے لیکن یہ ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی حل ہوتا ہے ۔ شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں سب سے زیادہ ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔ عشق میں ناکامی اور ہجر کا دکھ جھیلتے رہنے کی وجہ سے عاشق موت کی تمنا بھی کرتا ہے ۔موت کو شاعری میں برتنے کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں دیکھئے ۔
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
-
موضوعات : راستہاور 1 مزید
اک محبت بھرے سنیما میں
میرے مرنے کا سین میرے خواب
مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی
شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم
موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں
-
موضوع : زندگی
چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
زندگی کی بساط پر باقیؔ
موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ
نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے
-
موضوعات : خواباور 2 مزید
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
تشریح
چکبست کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا تھا:
ہو گئے مضمحل قویٰ غالبؔ
اب عناصر میں اعتدال کہاں
انسانی جسم کچھ عناصر کی ترتیب سے تشکیل پاتا ہے۔ حکماء کی نظر میں وہ عناصر آگ، ہوا، مٹی اور پانی ہے۔ ان عناصر میں جب انتشار پیدا ہوتا ہے تو انسانی جسم اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔یعنی غالب کی زبان میں جب عناصر میں اعتدال نہیں رہتا تو قویٰ یعنی مختلف قوتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ چکبست اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جب تک انسانی جسم میں عناصر ترتیب کے ساتھ رہتے ہیں آدمی زندہ رہتا ہے۔ اور جب یہ عناصر پریشان ہوجاتے ہیں یعنی ان میں توزن اور اعتدال نہیں رہتا تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : زندگیاور 2 مزید
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں
اے ہجر وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا
لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
بحر غم سے پار ہونے کے لیے
موت کو ساحل بنایا جائے گا
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
-
موضوع : زندگی
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
-
موضوع : زندگی
رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا
زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
موت بھی دور بہت دور کہیں پھرتی ہے
کون اب آ کے اسیروں کو رہائی دے گا
نہ سکندر ہے نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ جم
بے محل خاک میں ہیں قصر بنانے والے
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
تشریح
یہ غالبؔ کے مشہور اشعار میں شمار ہوتا ہے۔ اس شعر میں غالب نے خوب مناسبتیں بھرتی ہیں۔ جیسے دن کی مناسبت سے رات ، موت کی مناسبت سے نیند۔ اس شعر میں غالبؔ نے انسانی نفسیات کے ایک اہم پہلو سے پردہ اٹھاکر ایک نازک مضمون باندھا ہے۔ شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ جبکہ اللہ نے ہر ذی نفس کی موت کے کئے ایک دن مقرر کیا ہے اور میں بھی اس حقیقت سے خوب واقف ہوں، پھرمجھے رات بھر نیند کیوں نہیں آتی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ نیند کو موت کا ہی ایک روپ مانا جاتا ہے۔ شعر میں یہ رعایت بھی خوب ہے ۔ مگر شعر میں جو تہہ داری ہے اس کی طرف قاری کا دھیان فوری طور پر نہیں جاتا۔ دراصل غالب ؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگرچہ موت کا ایک دن الللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے اور میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ ایک نہ ایک دن موت آہی جائےگی پھر موت کے کھٹکے سے مجھے ساری رات نیند کیوں نہیں آتی۔ یعنی موت کا ڈر مجھے سونے کیوں نہیں دیتا۔
شفق سوپوری
-
موضوع : نیند
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
-
موضوع : زندگی
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
-
موضوعات : خراجاور 1 مزید
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
-
موضوع : خودداری
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
بندھن سا اک بندھا تھا رگ و پے سے جسم میں
مرنے کے بعد ہاتھ سے موتی بکھر گئے
-
موضوعات : رکشا بندھناور 1 مزید
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
-
موضوعات : بہانہاور 2 مزید
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب
خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
-
موضوع : تصور
سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی
ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
-
موضوع : انتظار
گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں
چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا
وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
دل کئی سال سے مرگھٹ کی طرح سونا ہے
ہم کئی سال سے روشن ہیں چتاؤں کی طرح
-
موضوع : زندگی
میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں
کون یہاں سو سال جیا ہے
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
موت کی گود میں جب تک نہیں تو سو جاتا
تو صداؔ چین سے ہرگز نہیں سونے والا
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید