Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zehra Nigaah's Photo'

زہرا نگاہ

1936 | کراچی, پاکستان

پاکستان کی ممتاز ترین شاعرات میں نمایاں

پاکستان کی ممتاز ترین شاعرات میں نمایاں

زہرا نگاہ کے اشعار

32.3K
Favorite

باعتبار

میں تو اپنے آپ کو اس دن بہت اچھی لگی

وہ جو تھک کر دیر سے آیا اسے کیسا لگا

بستی میں کچھ لوگ نرالے اب بھی ہیں

دیکھو خالی دامن والے اب بھی ہیں

شام ڈھلے آہٹ کی کرنیں پھوٹی تھیں

سورج ڈوب کے میرے گھر میں نکلا تھا

نہیں نہیں ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں

تجھے بھی بھول گئے ہم تری خوشی کے لئے

دیکھتے دیکھتے اک گھر کے رہنے والے

اپنے اپنے خانوں میں بٹ جاتے ہیں

جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو

اب محفل یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو

غم اپنے ہی اشکوں کا خریدا ہوا ہے

دل اپنی ہی حالت کا تماشائی ہے دیکھو

اب اس گھر کی آبادی مہمانوں پر ہے

کوئی آ جائے تو وقت گزر جاتا ہے

ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی

دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی

اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی

ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا

دیکھو وہ بھی ہیں جو سب کہہ سکتے تھے

دیکھو ان کے منہ پر تالے اب بھی ہیں

جو سن سکو تو یہ سب داستاں تمہاری ہے

ہزار بار جتایا مگر نہیں مانے

تاروں کو گردشیں ملیں ذروں کو تابشیں

اے رہ نورد راہ جنوں تجھ کو کیا ملا

جینا ہے تو جی لیں گے بہر طور دوانے

کس بات کا غم ہے رسن و دار کے ہوتے

عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی

پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا

صلح جس سے رہی میری تا زندگی

اس کا سارے زمانے سے جھگڑا سا تھا

جن باتوں کو سننا تک بار خاطر تھا

آج انہیں باتوں سے دل بہلائے ہوئے ہوں

زمیں پر گر رہے تھے چاند تارے جلدی جلدی

اندھیرا گھر کی دیواروں سے اونچا ہو رہا تھا

برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو

آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو

مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں

جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے

بہت دن بعد زہراؔ تو نے کچھ غزلیں تو لکھیں

نہ لکھنے کا کسی سے کیا کوئی وعدہ کیا تھا

لو ڈوبتوں نے دیکھ لیا ناخدا کو آج

تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو گئی

رک جا ہجوم گل کہ ابھی حوصلہ نہیں

دل سے خیال تنگی داماں گیا نہیں

اٹھو کہ جشن خزاں ہم منائیں جی بھر کے

بہار آئے گلستاں میں کب خدا جانے

وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے

کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے

ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی

تم جو آئے تو منزلیں لائے

ساعتیں جو تری قربت میں گراں گزری تھیں

دور سے دیکھوں تو اب وہ بھی بھلی لگتی ہیں

تم سے حاصل ہوا اک گہرے سمندر کا سکوت

اور ہر موج سے لڑنا بھی تمہی سے سیکھا

رات عجب آسیب زدہ سا موسم تھا

اپنا ہونا اور نہ ہونا مبہم تھا

ہم سے بڑھی مسافت دشت وفا کہ ہم

خود ہی بھٹک گئے جو کبھی راستہ ملا

اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں

آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں

شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ

پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا

روشنیاں اطراف میں زہراؔ روشن تھیں

آئینے میں عکس ہی تیرا مدھم تھا

وہ ساتھ نہ دیتا تو وہ داد نہ دیتا تو

یہ لکھنے لکھانے کا جو بھی ہے خلل جاتا

اپنا ہر انداز آنکھوں کو تر و تازہ لگا

کتنے دن کے بعد مجھ کو آئینہ اچھا لگا

اب بھی کچھ لوگ سناتے ہیں سنائے ہوئے شعر

باتیں اب بھی تری ذہنوں میں بسی لگتی ہیں

دیکھو تو لگتا ہے جیسے دیکھا تھا

سوچو تو پھر نام نہیں یاد آتے ہیں

دیر تک روشنی رہی کل رات

میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات

چھوٹی سی بات پہ خوش ہونا مجھے آتا تھا

پر بڑی بات پہ چپ رہنا تمہی سے سیکھا

گردش مینا و جام دیکھیے کب تک رہے

ہم پہ تقاضائے حرام دیکھیے کب تک رہے

ایک تیرا غم جس کو راہ معتبر جانیں

اس سفر میں ہم کس کو اپنا ہم سفر جانیں

نقش کی طرح ابھرنا بھی تمہی سے سیکھا

رفتہ رفتہ نظر آنا بھی تمہی سے سیکھا

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے

ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے

وہ نہ جانے کیا سمجھا ذکر موسموں کا تھا

میں نے جانے کیا سوچا بات رنگ و بو کی تھی

بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں

وہ ستم گر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے

کہاں کے عشق و محبت کدھر کے ہجر و وصال

ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لئے

دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے

تنہا نظر آتے ہیں غم یار کے ہوتے

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے

کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے

دیوانوں کو اب وسعت صحرا نہیں درکار

وحشت کے لیے سایۂ دیوار بہت ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے