Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khurshid Rabbani's Photo'

خورشید ربانی

1973

خورشید ربانی کے اشعار

686
Favorite

باعتبار

وحشتیں عشق اور مجبوری

کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ

دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا

وہ تغافل شعار کیا جانے

عشق تو حسن کی ضرورت ہے

یہ کون آگ لگانے پہ ہے یہاں مامور

یہ کون شہر کو مقتل بنانے والا ہے

ذرا سی دیر کو اس نے پلٹ کے دیکھا تھا

ذرا سی بات کا چرچا کہاں کہاں ہوا ہے

دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اس کا

یہ ادا تو بتوں میں ہوتی ہے

خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر

مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے

اتر کے شاخ سے اک ایک زرد پتے نے

نئی رتوں کے لیے راستہ بنایا تھا

میں ہوں اک پیکر خیال و خواب

اور کتنی بڑی حقیقت ہوں

ترا بخشا ہوا اک زخم پیارے

چلی ٹھنڈی ہوا جلنے لگا ہے

یہ کار محبت بھی کیا کار محبت ہے

اک حرف تمنا ہے اور اس کی پذیرائی

خوابوں کی میں نے ایک عمارت بنائی اور

یادوں کا اس میں ایک دریچہ بنا لیا

ماتمی کپڑے پہن لیے تھے میری زمیں نے

اور فلک نے چاند ستارہ پہن لیا تھا

یہ دل کہ زرد پڑا تھا کئی زمانوں سے

میں تیرا نام لیا اور بہار آ گئی ہے

کس کی خاطر اجاڑ رستے پر

پھول لے کر شجر کھڑا ہوا تھا

کسی نے میری طرف دیکھنا نہ تھا خورشیدؔ

تو بے سبب ہی سنوارا گیا تھا کیوں مجھ کو

کوئی نہیں جو مٹائے مری سیہ بختی

فلک پہ کتنے ستارے ہیں جگمگائے ہوئے

ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا

گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے