- کتاب فہرست 187508
-
-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
-
کارگزاریاں47
ادب اطفال2052
ڈرامہ1017 تعلیم371 مضامين و خاكه1468 قصہ / داستان1661 صحت103 تاریخ3510طنز و مزاح735 صحافت215 زبان و ادب1942 خطوط808
طرز زندگی23 طب1013 تحریکات300 ناول5007 سیاسی369 مذہبیات4754 تحقیق و تنقید7248افسانہ3029 خاکے/ قلمی چہرے287 سماجی مسائل118 تصوف2247نصابی کتاب566 ترجمہ4518خواتین کی تحریریں6355-
کتابیں : بہ اعتبار موضوع
- بیت بازی14
- اشاریہ5
- اشعار69
- دیوان1484
- دوہا51
- رزمیہ106
- شرح207
- گیت62
- غزل1291
- ہائیکو12
- حمد52
- مزاحیہ37
- انتخاب1639
- کہہ مکرنی7
- کلیات709
- ماہیہ19
- مجموعہ5242
- مرثیہ397
- مثنوی873
- مسدس58
- نعت592
- نظم1299
- دیگر77
- پہیلی16
- قصیدہ195
- قوالی18
- قطعہ70
- رباعی305
- مخمس16
- ریختی13
- باقیات27
- سلام35
- سہرا10
- شہر آشوب، ہجو، زٹل نامہ20
- تاریخ گوئی30
- ترجمہ74
- واسوخت27
ماہر القادری کے اشعار
ماہر القادرییہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
ماہر القادریعقل کہتی ہے دوبارہ آزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریب دوست کھاتے جائیے
ماہر القادریاک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
تشریح
اس شعر میں وارداتِ عشق کو عقل اور جنوں کے پیمانوں میں تولنے کا پہلو بہت دلچسپ ہے۔ عشق کے معاملے میں عقل اور جنوں کی کشمکش ازلی ہے۔ جہاں عقل عشق کو انسانی حیات کے لئے ایک وجہِ زیاں مانتی ہے وہیں جنوں عشق کو انسانی حیات کا لبِ لباب مانتی ہے۔ اور اگر عشق میں جنوں پر عقل غالب آگئی تو عشق عشق نہیں رہتا ۔ کیونکہ عشق کی اولین شرط جنوں ہے۔ اور جنوں کی آماجگاہ دل ہے۔ اس لئے اگر عاشق دل کے بجائے عقل کی سنے تو وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔
شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں اپنے محبوب کے عشق میں اس قدر مجنوں ہوگیا ہوں کہ اسے بھلانے کے لئے عقل نے ایک بار ٹھان لی تھی مگر میرے جنونِ عشق نے مجھے سو بار اپنے محبوب کی تصویر دکھا دی۔ ’تصویر دکھا‘ بھی خوب ہے۔ کیونکہ جنوں کی کیفیت میں انسان ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے جب اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو اگر چہ وہاں موجود نہیں ہوتی ہیں مگر اس نوع کے جنوں میں مبتلا انسان انہیں حقیقت سمجھتا ہے۔ شعر اپنی کیفیت کے اعتبار سے بہت دلچسپ ہے۔
شفق سوپوری
ماہر القادرییہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی
کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی
ماہر القادریابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں
انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی
ماہر القادریاگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
ماہر القادرینقاب رخ اٹھایا جا رہا ہے
وہ نکلی دھوپ سایہ جا رہا ہے
ماہر القادریپروانے آ ہی جائیں گے کھنچ کر بہ جبر عشق
محفل میں صرف شمع جلانے کی دیر ہے
ماہر القادریسناتے ہو کسے احوال ماہرؔ
وہاں تو مسکرایا جا رہا ہے
ماہر القادرییوں کر رہا ہوں ان کی محبت کے تذکرے
جیسے کہ ان سے میری بڑی رسم و راہ تھی
join rekhta family!
Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here
-
کارگزاریاں47
ادب اطفال2052
-
