قمر جلالوی کے اشعار
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو
سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں
وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمرؔ
کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے
آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے
مجھ سے نصیب اچھے ہے میرے مزار کے
رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمرؔ
اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون
-
موضوع : چاند
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام
گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے
-
موضوع : شام
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی
چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو
-
موضوع : رسوائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سرمے کا تل بنا کے رخ لا جواب میں
نقطہ بڑھا رہے ہو خدا کی کتاب میں
روئیں گے دیکھ کر سب بستر کی ہر شکن کو
وہ حال لکھ چلا ہوں کروٹ بدل بدل کر
اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو
جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں
-
موضوع : کشتی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس لئے آرزو چھپائی ہے
منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے
قمرؔ کسی سے بھی دل کا علاج ہو نہ سکا
ہم اپنا داغ دکھاتے رہے زمانے کو
مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے
تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ
جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے
دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں
ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں
یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر
مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا
آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں
تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول
صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار
شب کو مرا جنازہ جائے گا یوں نکل کر
رہ جائیں گے سحر کو دشمن بھی ہاتھ مل کر
نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے
کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تم نے
جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے
چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے
میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے
قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں
شاہد ہیں آسماں کے ستارے قمر ہوں میں
یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے
قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر
گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے
اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی
دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی
نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے
کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی
جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے
ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے
ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ
لگ جائیں چار چاند شب ماہتاب میں
قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے
ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی
نگاہ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم میں جو بات ہے وہ بات نہیں آئی ہے
کیا یہ تصویر کسی اور سے کھنچوائی ہے
ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں
کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ
خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا
شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قمرؔ اپنے داغ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی
کہ سنا کئے ستارے مرا رات بھر فسانہ